فَكَيْفَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ثُمَّ جَاءُوكَ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا إِحْسَانًا وَتَوْفِيقًا
سو اس وقت کیا ہوگا جب ان کے اعمال کے سبب جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجے ان پر مصیبت آئے گی ، پھر تیری طرف اللہ کی قسمیں کھاتے آئیں گے کہ ہمارا مقصد سوائے بھلائی اور ملاپ کے اور کچھ نہیں تھا ۔(ف ١)
[٩٤] منافق کے قتل کے بعد اس کے وارث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے قصاص کا مقدمہ کردیا اور مقدمہ کی بنیاد یہ بنائی کہ ہمارا ارادہ آپ کے فیصلہ کے خلاف سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فیصلہ لینا ہرگز نہ تھا بلکہ ہمارا ارادہ یہ تھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان دونوں فریقین کے درمیان صلح اور سمجھوتہ کرا دیں گے اور اپنے اس بیان پر اللہ کی قسمیں بھی کھانے لگے کہ فی الواقع ہمارا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جانے کا مقصد سمجھوتہ ہی تھا۔