سورة النسآء - آیت 60

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کیا تونے انکی طرف نہ دیکھا جن کا یہ دعوی ہے کہ جو کلام تجھ پر نازل ہوا اور جو تجھ سے پہلے نازل ہوا ہے ہم اسے مانتے ہیں ، ان کا ارادہ ہے کہ شیطان کی طرف فیصلہ کے لئے مقدمہ لے جائیں ، حالانکہ انہیں حکم ہوچکا ہے کہ اس کا انکار کریں اور شیطان انہیں گمراہی میں دور لے جانا چاہتا ہے ۔ (ف ٢)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩٢] منافقوں کا آپ کے پاس فیصلہ لانے سے گریز :۔ جو دعویٰ تو مسلمانوں کا سا کرتے ہیں مگر حقیقت میں منافق ہیں اور طاغوت کا مفہوم پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اس سے مراد ہر وہ فرد، عدالت، ادارہ یا نظام ہے جو اللہ کے حکم کے مقابلہ میں اپنا حکم لوگوں پر مسلط کرنا چاہتا ہو۔ منافقوں کا طریقہ یہ تھا کہ جس مقدمہ میں انہیں توقع ہوتی کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا اسے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے آتے اور جس مقدمہ میں یہ خطرہ ہوتا کہ فیصلہ ان کے خلاف ہوگا اسے آپ کے پاس لانے میں پس و پیش کرنے لگتے حتیٰ کہ انکار بھی کردیتے تھے۔ یہی حال آج بھی نام نہاد مسلمانوں کا ہے۔ اگر شریعت کا فیصلہ ان کے حق میں ہو تو سر آنکھوں پر، ورنہ وہ ہر اس قانون، ہر اس رسم و رواج اور ہر اس عدالت کے دامن میں جا پناہ لیں گے جہاں سے انہیں اپنی منشا کے مطابق فیصلہ ہوجانے کی توقع ہو اور یہ بات دراصل نفاق کی علامت ہے۔