سورة المعارج - آیت 40

فَلَا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ إِنَّا لَقَادِرُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

سو میں مشرقوں اور مغربوں کے رب کی قسم کھاتا ہوں بےشک ہم اس بات پر قادر ہیں

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٥] مشرق عموماً سورج کے طلوع ہونے کی جگہ اور مغرب سورج کے غروب ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ سورۃ مزمل میں ایک مشرق اور ایک مغرب کا ذکر ہے۔ سورۃ الرحمٰن میں دو مشرقوں اور دو مغربوں کا ذکر ہے۔ اور اس مقام پر بہت سے مشرقوں اور مغربوں کا ذکر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موسم سرما کے سب سے چھوٹے دن یعنی ٢٢ دسمبر کو سورج مشرق کی طرف سے نکلنے کے باوجود جنوب کی طرف بہت زیادہ مائل ہوتا ہے۔ اسی طرح اس دن سورج کا مغرب بھی جنوب کی طرف بہت زیادہ مائل ہوتا ہے۔ اسی طرح موسم گرما میں سب سے بڑے دن یعنی ٢٢ جون کو سورج مشرق کی سمت سے نکلنے کے باوجود شمال کی طرف بہت زیادہ مائل ہوتا ہے اسی طرح اس دن جب مغرب میں غروب ہوتا ہے تو شمال کی طرف بہت زیادہ مائل ہوتا ہے اور جب دن رات برابر ہونے کے دن یعنی ٢٢ مارچ اور ٢٢ ستمبر کو سورج عین مشرق سے طلوع ہو کر عین مغرب میں غروب ہوجاتا ہے جیسا کہ سامنے کے نقشے سے واضح ہے : نقشہ کے لیے اصل کتاب ملاحظہ کیجئے۔ اس نقشہ میں مقام ''الف'' اور ''ب'' مشرقین ہیں اور مقام ''ج'' اور ''د'' مغربین ہیں۔ پھر ان مشرقین اور مغربین کے درمیان ٣٦٥ مشرق ہیں اور اتنے ہی مغرب کیونکہ سورج ہر روز ایک نئے زاویہ سے طلوع ہوتا ہے۔ یہ صورت تو صرف ایک سیارے سورج کی ہے۔ جبکہ بہت سے سیارے مشرق سے طلوع ہو کر مغرب میں جا ڈوبتے ہیں۔ اس طرح مشرقوں اور مغربوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔