سورة القلم - آیت 2

مَا أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کہ تو اپنے رب کی نعمت فضل سے دیوانہ (ف 2) نہیں ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣] قریش کا آپ کو دیوانہ کہنا کن وجوہ کی بنا پر غلط ہے؟ یہ سب صورتیں اس بات پر کھلی کھلی شہادت ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے فضل سے دیوانہ نہیں ہیں اور قریش مکہ جو آپ کو اس لقب سے پکارتے ہیں تو یہ جھوٹے ہیں اور بکواس کرتے ہیں۔ کیونکہ دیوانے کے سامنے اپنی زندگی کا کوئی مقصد متعین نہیں ہوتا۔ جبکہ آپ برملا اللہ کی راہ کی طرف بلاتے ہیں۔ علاوہ ازیں دیوانے کے قول اور فعل میں کبھی مطابقت نہیں پائی جاتی۔ اس لئے کہ اسے اتنا ہوش نہیں ہوتا کہ وہ کہہ کیا چکا ہے اور کر کیا رہا ہے۔ تیسری یہ بات کہ دیوانہ ہمیشہ بے سروپا اور بہکی بہکی باتیں کرتا ہے۔ جبکہ آپ کو یہ لوگ صادق اور امین ہونے کا سرٹیفیکیٹ دے چکے ہیں۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کے الزام کو درست سمجھا جائے۔ وہ تو محض بغض و عناد اور اپنی حسرت مٹانے کے لیے آپ کو دیوانہ کہہ دیتے ہیں۔