الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا
مرد عورتوں پر حاکم ہیں ۔ اس لئے کہ اللہ نے ایک کو ایک پر فضیلت بخشی ہے اور اس لئے بھی کہ وہ اپنے مال میں سے خرچ کرتے ہیں (ف ٢) پس نیک بخت عورتیں فرمانبردار (ہوتی ہیں) اور اللہ کی حفاظت سے شوہروں کی غیبت میں خبرداری کرتی ہیں اور وہ عورتیں جنکی بدخوئی سے تم ڈرتے ہو انہیں سمجھاؤ اور خوابگاہوں میں جدا چھوڑ دو اور انہیں مارو پھر اگر وہ تمہارا کہنا مانیں تو ان پرالزام کی راہ تلاش نہ کرو ، بےشک اللہ بلند سب سے بڑا ہے (ف ١)
[٥٧] مرد قوام کس لحاظ سے ہیں؟ قوام کا معنیٰ سرپرست، سربراہ اور منتظم ہے۔ یعنی ایسا شخص جو کسی دوسرے کی تمام تر معاشی اور معاشرتی ذمہ داریاں پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ پھر مردوں کے قوام ہونے کی اللہ تعالیٰ نے دو وجوہ بیان فرمائی ہیں۔ ایک یہ کہ مرد اپنی جسمانی ساخت کے لحاظ سے عورتوں سے مضبوط ہوتے ہیں مشقت کے کام جتنا مرد کرسکتے ہیں عورتیں نہیں کرسکتیں۔ پھر ذمہ داریوں کو نباہنے کی صلاحیت بھی مردوں میں عورتوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ چنانچہ تاریخ کے اوراق اس بات پر شاہد ہیں کہ جو کچھ کارہائے نمایاں مردوں نے سرانجام دیئے ہیں عورتیں اس کے عشر عشیر کو بھی نہ پہنچ سکیں اور یہ کارنامے خواہ زندگی کے کسی بھی پہلو اور تاریخ کے کسی بھی دور سے تعلق رکھتے ہوں۔ لہٰذا گھر کی چھوٹی سی ریاست کا سربراہ یا قوام بھی مرد ہی کو ہونا چاہیے اور مردوں کے قوام ہونے کی دوسری وجہ یہ بتائی کہ وہ اپنے اہل خانہ کے تمام تر معاشی اخراجات کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور بنائے گئے ہیں اور اس کی بھی اصل وجہ وہی ہے جو پہلی وجہ میں مذکور ہوئی کہ مرد محنت شاقہ کر کے جو کچھ کمائی کرسکتے ہیں وہ عورتیں نہیں کرسکتیں۔ لہٰذا امور خانہ داری کا سربراہ تو عورت کو بنایا گیا اور پورے گھر کی اندرونی اور بیرونی ذمہ داریوں کا سربراہ مرد کو۔ یہی وجہ ہے کہ طلاق اور رجوع کا حق بھی مرد کو دیا گیا ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’مرد اپنے اہل بیت پر حکمران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق بازپرس ہوگی۔ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد پر حکمران ہے اس سے اس کے متعلق بازپرس ہوگی۔‘‘ (بخاری کتاب الاحکام۔ باب (اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ)نیز کتاب النکاح، باب (قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ .....، مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامیر العادل) [٥٨] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’بہترین بیوی وہ ہے کہ جب تم اسے دیکھو تو تمہارا جی خوش ہوجائے، جب اسے کسی بات کا حکم دو تو وہ تمہاری اطاعت کرے اور جب تم گھر میں موجود نہ ہو تو وہ تمہارے پیچھے تمہارے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے۔‘‘ (بخاری، کتاب النفقات، باب حفظ المرأۃ زوجہا فی ذات یدہ) اچھی بیوی کی صفات :۔ اس مختصر سی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اچھی بیوی کی چار صفات بیان فرمائی ہیں۔ دو تو شوہر کی موجودگی سے تعلق رکھتی ہیں اور دو عدم موجودگی سے۔ موجودگی سے متعلق یہ ہیں کہ جب شوہر گھر میں ہو یا باہر سے کام کاج کے بعد شام کو گھر آئے تو اس کی بیوی خندہ پیشانی سے اس کا استقبال کرے اس کا جسم اور اس کے کپڑے صاف ستھرے ہوں اور وہ اپنے خاوند کا دل موہ لے اور خاوند اسے دیکھ کر خوش ہوجائے۔ دوسری یہ کہ خاوند اسے اگر کھانے پینے سے متعلق کسی بات کے لیے کہے تو اسے فوراً بجا لائے۔ یا اگر اسے بوس و کنار کے لیے بلائے تو بطیب خاطر اس کی بات مانے۔ اور جب گھر میں نہ ہو تو کسی غیر مرد کو گھر میں داخل نہ ہونے دے۔ نہ ہی خود کسی غیر مرد سے آزادانہ اختلاط یا خوش طبعی کی باتیں کرے۔ نیز اپنے شوہر کے گھر کی امین ہو۔ اس کے مال کو نہ فضول کاموں میں خرچ کرے نہ ہی اس کی اجازت کے بغیر اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔ الایہ کہ اس کا مال ذاتی ہو اور نہ ہی چوری چھپے خاوند کے مال سے اپنے میکے والوں کو دینا شروع کر دے۔ مگر جب خاوند کوئی ایسا کام بتائے جو گناہ کا کام ہو اور اس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو تو اللہ کی معصیت کے مقابلہ میں کسی کی اطاعت جائز نہیں۔ جیسے مثلاً مرد اسے نماز کی ادائیگی یا پردہ کرنے سے روکے یا اسے شرک و بدعت والے کاموں پر مجبور کرے تو اس سے انکار کردینا ضروری ہے ورنہ وہ گنہگار ہوگی۔ اور خاوند کی اطاعت کی حد کے بارے میں مندرجہ ذیل دو احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر عورت کا خاوند اس کے پاس موجود ہو تو وہ اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے۔‘‘ (بخاری، کتاب النکاح، باب صوم المراۃ باذن زوجھا تطوعا) ٢۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب مرد اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ نہ آئے تو صبح تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔‘‘ (بخاری، کتاب النکاح۔ باب اذاباتت المراۃ مھاجرۃ فراش زوجھا) [٥٩] نشوز کا لغوی معنیٰ بلندی یا ارتفاع، اٹھان اور ابھار کے ہیں۔ خصوصاً جب کسی چیز میں یہ اٹھان تحرک اور ہیجان کا نتیجہ ہو مثلاً عورت اپنے خاوند کو اپنا ہمسر یا اپنے سے کمتر سمجھتی ہو یا اس کی سربراہی کو اپنے لیے توہین سمجھ کر اسے تسلیم نہ کرتی ہو۔ اس کی اطاعت کے بجائے اس سے کج بحثی کرتی ہو۔ خندہ پیشانی سے پیش آنے کی بجائے بدخلقی سے پیش آتی ہو اور سرکشی پر اتر آتی ہو۔ بات بات پر ضد اور ہٹ دھرمی دکھاتی ہو یا مرد پر ناجائز قسم کے اتہامات لگاتی ہو۔ یہ باتیں نشوز کے معنیٰ میں داخل ہیں۔ ایسی عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو تین قسم کے ترتیب وار اقدام کرنے کی اجازت دی ہے۔ پہلا قدم یہ ہے کہ اسے نرمی سے سمجھائے کہ اس کے اس رویہ کا کیا انجام ہوسکتا ہے۔ لہٰذا وہ کم از کم اپنی بہتری اور مفاد کی خاطر گھر کی فضا کو مکدر نہ بنائے۔ پھر اگر وہ خاوند کے سمجھانے بجھانے کا کچھ اثر قبول نہیں کرتی تو خاوند اس سے الگ کسی دوسرے کمرہ میں سونا شروع کر دے۔ اور اسے اپنے ساتھ نہ سلائے۔ اگر اس عورت میں کچھ بھی سمجھ بوجھ ہوگی اور اپنا برا بھلا سمجھنے سوچنے کی تمیز رکھتی ہوگی تو وہ اپنے خاوند کی اس ناراضی اور سرد جنگ کو برداشت نہیں کرسکے گی۔ اگر پھر بھی اسے ہوش نہیں آتا تو پھر تیسرے اور آخری حربہ کے طور پر مارنے کی بھی اجازت دی گئی ہے، مگر چند شرائط کے ساتھ جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث سے واضح ہے : ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’خبردار! عورتوں کے متعلق نیک سلوک کی وصیت قبول کرو۔ وہ تمہارے پاس صرف تمہارے لیے مخصوص ہیں۔ اس کے سوا تم ان کے کچھ بھی مالک نہیں، بجز اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کریں اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں بستروں میں علیحدہ کرسکتے ہو اور اس طرح مار سکتے ہو کہ انہیں چوٹ نہ آئے‘‘ (ترمذی، ابو اب الرضاع، باب فی حق المرأۃ علی زوجھا) ٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’بیوی کو مارو نہیں نہ اسے برا بھلا کہو اور نہ اسے چھوڑو مگر گھر میں‘‘ (یعنی گھر میں ہی اسے اپنے بستر سے علیحدہ سلاؤ۔ گھر سے نکالو نہیں۔) (ابو داؤد، کتاب النکاح، باب فی حق المرأۃ علی زوجھا) ٣۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو یوں نہ مارے جیسے اپنے غلام کو مارتے ہو، پھر دن کے آخر میں اس سے جماع بھی کرے۔‘‘ (بخاری، کتاب النکاح، باب مایکرہ من ضرب النساء۔۔ مسلم کتاب الجنۃ۔ باب النار یدخلہ الجبارون) یعنی اگر مارنے کے بغیر عورت کے راہ راست پر آنے کا کوئی امکان نہ ہو تو یہ سوچ کر مارے کہ ممکن ہے رات کو اسے بیوی کی ضرورت پیش آ جائے اور اسے منانا پڑے۔ دوسرے یہ کہ اسے غلاموں کی طرح بے تحاشا نہ مارے۔ اور ایک حدیث کے مطابق کسی کو بھی یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی، یا ملازم یا بال بچوں کو منہ پر مارے۔ اور تیسری پابندی یہ ہے کہ ایسی مار نہ مارے جس سے اس کی بیوی کو کوئی زخم آ جائے یا اس کی کوئی ہڈی پسلی ٹوٹ جائے۔ ان حدود و قیود کے ساتھ خاوند کو ایسی اضطراری حالت میں بیوی کو مارنے کی اجازت دی گئی ہے۔ [٦٠] یعنی اگر وہ باز آ جاتی ہیں تو محض ان پر اپنا رعب داب قائم کرنے کے لیے پچھلی باتیں یاد کر کے ان سے انتقام نہ لو اور اس اجازت سے ناجائز فائدہ نہ اٹھاؤ اور اگر ایسا کرو گے تو اللہ جو بلند مرتبہ اور تم پر پوری قدرت رکھتا ہے تم سے تمہارے اس جرم کا بدلہ ضرور لے گا۔