وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ۚ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا
اور تمہاری عورتوں میں سے وہ عورتیں جو حیض سے ناامید ہوگئی ہیں ۔ اگر تم شک میں ہو تو ان کی مدت تین مہینے ہے ۔ ایسے ہی ان کی جنہیں حیض نہیں آتا ۔ اور جن کے پیٹ میں بچہ ہے ان کی عدت یہ ہے کہ پیٹ کا بچہ جنیں اور جو کوئی اللہ سے ڈرتا رہے گا وہ اس کے کام میں آسانی کریگا
[١٥] نکاح نابالغاں :۔ یعنی جو عورتیں اتنی بوڑھی ہوچکی ہوں کہ انہیں حیض آنا بند ہوچکا ہو یا وہ نابالغ لڑکیاں جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو۔ اور بعض عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ انہیں عمر کی نسبت سے بڑی دیر کے بعد حیض آتا ہے اور ایسا بھی ممکن ہے کہ کسی عورت کو عمر بھر حیض نہ آئے۔ ایسی سب عورتوں کی عدت تین ماہ ہے اور یہ اس دن سے شروع ہوجائے گا جس دن سے اسے طلاق دی گئی اور تین ماہ قمری شمار ہوں گے، شمسی نہیں۔ ضمناً اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ نابالغ بچیوں کی شادی بھی جائز ہے اور ان سے صحبت کرنا بھی جائز ہے۔ اسی طرح جن بڑی عورتوں کو بھی حیض نہ آیا ہو یا اتنی بوڑھی ہوچکی ہوں کہ ان کا حیض بند ہوچکا ہو ان سے بھی صحبت کرنا جائز ہے۔ اس آیت میں ﴿ارْتَبْتُمْ ﴾ کے الفاظ بڑے ذومعنی ہیں۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اگر تمہیں ایسی عورتوں کی عدت معلوم کرنے میں تشویش ہو اور تم ان کی عدت معلوم کرنا چاہتے ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی عدت تین ماہ ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ بے حیض عورت کے ہاں عموماً اولاد پیدا نہیں ہوتی۔ تاہم ایسی عورتوں کے ہاں اولاد کا پیدا ہوجانا اللہ کی قدرت سے کچھ بعید بھی نہیں۔ اور اس کی مثالیں بھی اس دنیا میں پائی جاتی ہیں اگرچہ ایسی مثالیں شاذ ہیں۔ تاہم ناممکن اور مفقود بھی نہیں۔ اسی لئے ایسی عورتوں کی عدت مقرر کردی گئی۔ [١٦] عورت مطلقہ ہو یا بیوہ ہو یعنی اس کا خاوند فوت ہوجائے اس کی عدت وضع حمل تک ہوگی۔ جیسا کہ اسی سورۃ کی پہلی آیت کے حاشیہ نمبر ١ میں اس کی وضاحت پیش کی جاچکی ہے۔ [١٧] اس سورت میں بار بار اللہ سے ڈرتے رہنے کی تاکید کی گئی ہے وجہ یہ ہے کہ ازدواجی زندگی کے مسائل بھی کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ جب تک انسان ہر وقت اللہ سے ڈرتا نہ رہے وہ اپنی بیوی کے معاملہ میں بے راہ رو ہوجاتا ہے اور اسی لیے کتاب و سنت میں اپنی بیویوں سے حسن سلوک کی بار بار تاکید آئی ہے۔