سورة المنافقون - آیت 5

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَوَّوْا رُءُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جب انہیں کہا گیا کہ آؤ تمہارے رسول خدا معافی مانگیں تو اپنے سر پھیر لئے ہیں اور تونے انہیں دیکھا کہ رکتے اور تکبر کرتے ہیں

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩] ویسے تو سب منافقوں کا یہی حال تھا۔ مگر ان کا سردار عبداللہ بن ابی اس بات میں بھی ان کا سردار تھا۔ جب بھی ان کی کوئی سازش یا ناشائستہ حرکت یا راز کی بات پکڑی جاتی تو مسلمان ان سے کہتے کہ : چلو، چل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی مانگ لو۔ وہ آپ کو خود بھی معاف کردیں گے اور اللہ سے بھی تمہاری مغفرت کی دعا کریں گے۔ ایسے ہی ایک موقعہ پر عبداللہ بن ابی نے مسلمانوں کو یہ جواب دیا کہ ’’تم نے مجھے ایمان لانے کو کہا تو میں ایمان لے آیا۔ تم نے نمازیں ادا کرنے کو کہا تو وہ بھی میں نے ادا کیں۔ تم نے مال کی زکوٰۃ ادا کرنے کو کہا تو وہ بھی میں نے ادا کی۔ اب کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کروں؟‘‘ اس کا کبرونخوت سے بھرا ہوا یہ جواب سن کر آپ کیا سمجھتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا ہوگا ؟ یا مسلمانوں نے اسے آگے کچھ کہا ہوگا ؟ اس کی اسی متکبرانہ کیفیت کا نقشہ اللہ نے اس آیت میں کھینچا ہے۔