يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا
مومنو ! ایک دوسرے کا مال ناحق طور پر نہ کھاؤ لیکن آپس کی رضا مندی سے سودا ہو تو مضائقہ نہیں اور باہم خونریزی نہ کرو بےشک خدا تم پر مہربان ہے ۔ (ف ٢)
[٤٨] باطل طریقے کون کون سے ہیں؟ باطل طریقوں سے مراد ہر وہ ذریعہ آمدنی ہے جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہو۔ اور اس کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً : ١۔ ہر وہ کام جس سے دوسرے کا مالی نقصان ہو جیسے چوری، ڈاکہ، غصب، غبن وغیرہ۔ ٢۔ سود اور اس کی تمام شکلیں، خواہ یہ سود مفرد ہو، مرکب ہو، ڈسکاؤنٹ ہو، مارک اپ اور مارک ڈاؤن ہو یا خواہ یہ ذاتی قرضے کا سود ہو اور خواہ یہ رباالنسیئہ (مدت کے عوض سود) ہو یا ربا الفضل (ایک ہی جنس میں کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ) ہو۔ ٣۔ ہر ایسا کام جس میں تھوڑی سی محنت سے کثیر مال ہاتھ آتا ہو۔ جیسے جوا، لاٹری اور سٹہ بازی وغیرہ اور بعض حالتوں میں بیمہ پالیسی۔ ٤۔ اندھے سودے یا قسمت کے سودے جن میں صرف ایک ہی عوض مقرر ہوتا ہے دوسرا نہیں ہوتا۔ (عوضین یہ ہے کہ مثلاً ایک کتاب کی قیمت سو روپے ہے تو کتاب کا عوض سو روپے اور سو روپے کا عوض کتاب) جیسے غوطہ خور سے ایک غوطہ کی قیمت مقرر کرنا، بیع ملامسہ، منابذہ۔ بچوں کے کھیل کہ جس چیز پر بچے کا نشانہ لگے وہ اتنی قیمت میں اس کی۔ ٥۔ ہر وہ لین دین جس میں کسی ایک فریق کا فائدہ یقینی ہو دوسرے کو خواہ فائدہ ہو یا نقصان جیسے سود اور ایسے تمام سودے اور معاملات جن میں یہ شرط پائی جاتی ہو۔ ٦۔ ایسے سودے جو محض تخمینہ سے طے کیے جائیں اور ان میں دھوکہ کا احتمال موجود ہو جیسے کسی ڈھیر کا بالمقطع سودا کرنا یا مال خرید کر قبضہ کیے بغیر آگے چلا دینا یا غیر موجود مال کا سودا کرنا اور باغات وغیرہ کے پیشگی سودے (ان میں بیع سلم اور بیع عرایا کی رخصت ہے جو چھوٹے پیمانہ پر ہوتی ہے اور غریبوں کی سہولت کے لیے جائز کی گئی ہے۔) ٧۔ وہ بیع جس میں مشتری دھوکہ دینے کی کوشش کرے مثلاً عیب چھپانا، جانور کا دودھ روک کر بیچنا، ناپ تول میں کمی بیشی کر جانا، دوسرے کو پھنسانے کے لیے بولی چڑھانا وغیرہ۔ ٨۔ جو اشیاء حرام ہیں ان کی خرید و فروخت جیسے شراب کی سوداگری یا ان اشیاء کی جو شراب خانے میں استعمال ہوتی ہیں، مردار کا گوشت، تصویریں اور مجسمے، فحاشی پر مشتمل کتابیں اور تصویریں، کسی حرام کاروبار کے لیے دکان یا مکان کرایہ پر دینا، کاہن کی کمائی، فاحشہ کی کمائی، کتے کی قیمت وغیرہ۔ ٩۔ حکومت کے ذریعہ دوسروں کے مال بٹورنا مثلاً لین دین کے جھوٹے مقدمات اور رشوت وغیرہ یا حکومت کا لوگوں کی زمین پر قبضہ کر کے ان کو اپنی مرضی کے مطابق لین دین پر مجبور کرنا۔ جیسے حکومت کے محکمہ ہائے ایل ڈی اے، کے ڈی اے وغیرہ دوسرے لوگوں کی زمینیں ان کی رضامندی کے بغیر حاصل (AQUIRE) کرلیتے ہیں۔ ١٠۔ کتاب اللہ میں تحریف و تاویل اور غلط فتووں سے مال بٹورنا اور یہ کام بالخصوص علماء سے مختص ہے۔ اب اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’بائع اور مشتری صرف اسی حال میں جدا ہوں کہ وہ ایک دوسرے سے راضی ہوں۔‘‘ (ترمذی، ابو اب البیوع، باب البیعان بالخیار مالم یتفرقا) ٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں سودے کو پورا کرنے یا فسخ کرنے کا اس وقت تک اختیار رکھتے ہیں جب تک وہ جدا نہ ہوں سوائے بیع خیار کے‘‘ (جس میں معین مدت کے اندر سودا فسخ کرنے کی شرط ہوتی ہے۔) (بخاری، کتاب البیوع، باب البیعان بالخیار مالم یتفرقا) ٣۔ ابو امامہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص قسم کھا کر کسی مسلمان کا حق مار لیتا ہے اللہ اس کے لیے دوزخ واجب کردیتا ہے اور جنت اس کے لیے حرام ہوجاتی ہے۔‘‘ کسی نے آپ سے پوچھا اگرچہ یہ حق تلفی بالکل معمولی قسم کی ہو؟ فرمایا ’’اگرچہ وہ پیلو کے درخت کی ایک شاخ ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ (مسلم بحوالہ فقہ السنہ جلد ٢ صفحہ ١٤٩) ٤۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ عزوجل چار قسم کے آدمیوں سے دشمنی رکھتا ہے۔ ایک وہ جو قسمیں کھا کر سودا بازی کرتا ہو، دوسرے محتاج جو اکڑ باز ہو۔ تیسرے بوڑھے زانی سے اور چوتھے ظلم کرنے والے حاکم سے‘‘(نسائی، کتاب الزکوٰۃ، باب الفقیر المحتال) ٥۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے نہ کلام کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور انہیں دردناک عذاب ہوگا۔‘‘ میں نے پوچھا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! وہ کون ہیں؟ وہ تو نامراد ہوگئے اور خسارہ میں رہے۔‘‘ فرمایا۔’’ایک تہبند (ٹخنوں سے نیچے) لٹکانے والا۔ دوسرا احسان جتلانے والا اور تیسرا جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال بیچنے والا۔‘‘ (مسلم، کتاب الایمان۔ باب غلظ تحریم تنفیق السلعۃ بالحلف) ٦۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے تاجروں کے گروہ! سودے بازی میں بے ہودہ باتیں اور قسمیں شامل ہوجاتی ہیں لہٰذا تم ان کے ساتھ صدقہ بھی ملا لیا کرو۔‘‘ (ترمذی، ابو اب البیوع، باب ماجاء فی التجار۔ نسائی، کتاب البیوع باب الحلف الواجب) ٧۔ ناپ تول میں کمی سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بلاشبہ تم دو ایسے کاموں کے والی بنائے گئے ہو کہ تم سے پہلے کی قومیں اسی جرم کی پاداش میں ہلاک ہوئیں۔‘‘ (ترمذی، کتاب البیوع، باب فی المکیال والمیزان) ٨۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بازار تشریف لے گئے وہاں ایک تولنے والا کوئی جنس تول رہا تھا اسے دیکھ کر آپ نے فرمایا 'تول اور کچھ جھکتا تول۔ (نسائی، کتاب البیوع، باب الرجحان فی الوزن) ٩۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ یہود کو غارت کرے، ان پر چربی حرام کی گئی تو انہوں نے اسے پگھلایا پھر بیچ ڈالا۔‘‘ (بخاری، کتاب البیوع باب لایذاب شحم المیتۃ) ١٠۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بلاشبہ اللہ نے شراب، مردار، سور اور بتوں کی سوداگری کو حرام کیا ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب البیوع، باب بیع المیتۃ والاصنام) ١١۔ ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، فاحشہ کی کمائی اور نجومی کی اجرت سے منع فرمایا ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب البیوع، باب ثمن الکلب) ١٢۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں بھی ایک آدمی ہوں۔ تم میرے سامنے جھگڑا لیے آتے ہو۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنی دلیل دوسرے فریق کی نسبت اچھی طرح بیان کرتا ہے اور میں جو سنتا ہوں اس پر فیصلہ کردیتا ہوں۔ پھر اگر میں کسی کو اس کے مسلمان بھائی کا حق دلا دوں تو وہ ہرگز نہ لے۔ میں اسے دوزخ کا ایک ٹکڑا دلا رہا ہوں‘‘ (بخاری، کتاب الحیل، باب بلاعنوان۔ بخاری، کتاب الاحکام، باب من قضی لہ من حق اخیہ فلا یا خذہ) ١٣۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’جو شخص تصویریں بناتا ہے، قیامت کے دن اللہ اسے کہے گا کہ اب اس میں جان بھی ڈال اور وہ یہ کام کبھی نہ کرسکے گا۔‘‘ (بخاری، کتاب البیوع، باب بیع التصاویر التی لیس فیہا الروح) ١٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ بازار میں غلہ لانے والے کو رزق ملتا ہے اور ذخیرہ اندوز ملعون ہے۔ (ابن ماجہ، دارمی بحوالہ مشکوۃ، کتاب البیوع، باب الاحتکار، فصل ثانی) ١٥۔ واثلہ بن الاسقع کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ’’جس شخص نے اپنی عیب دار چیز عیب بتائے بغیر بیچی وہ ہمیشہ اللہ کے غضب میں رہے گا اور فرشتے اس پر لعنت کرتے رہیں گے۔‘‘ (ابن ماجہ بحوالہ مشکوۃ، کتاب البیوع، باب المنہی عنہا من البیوع۔ فصل ثالث) ١٦۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’بائع اور مشتری دونوں جب تک جدا نہ ہوں، مختار ہیں۔ پھر اگر انہوں نے سچ بولا اور صاف گوئی سے کام لیا تو ان کے سودے میں برکت دی جاتی ہے۔ اور وہ عیب وغیرہ چھپا گئے اور جھوٹ بولا تو ان کے سودے سے برکت اٹھا لی جاتی ہے۔‘‘(بخاری، کتاب البیوع، باب اذابین البیعان نیز باب مایمحق الکذب والکتمان فی البیع) ١٧۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دفعہ) آپ کا ایک غلہ کے ڈھیر پر گزر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس میں داخل کیا تو انگلیوں کو نمی محسوس ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’اے غلہ والے! یہ کیا ؟‘‘ وہ کہنے لگا :’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! بارش ہوگئی تھی۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تو تو نے (اس نمدار غلے کو) ڈھیر کے اوپر کیوں نہ کیا تاکہ لوگ اسے دیکھ سکتے۔‘‘ پھر فرمایا ’’جس نے دھوکا دیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ (مسلم، کتاب الایمان، باب قول النبی من غشنا فلیس منا ) ١٨۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تم میں سے کوئی اونٹنی یا بکری خریدے جس کا دودھ بڑھایا گیا ہو تو دودھ دوہنے کے بعد خریدنے والے کو دو باتوں میں سے کسی ایک کا اختیار ہے۔ چاہے تو اسے رکھ لے اور چاہے تو واپس کر دے اور ایک صاع کھجور بھی اس کے ساتھ دے۔‘‘ (مسلم، کتاب البیوع۔ باب حکم بیع المصراۃ) ١٩۔ ایک دوسری روایت کے مطابق یہ اختیار تین دن تک ہے۔ (حوالہ ایضاً) ٢٠۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ (کھیتی پکنے سے پہلے سود اچکا لینے) سے اور مزابنۃ (کھجور، انگور پکنے سے پہلے خشک کھجور یا انگور کا سودا چکا لینے) سے اور مخابرہ (زمین کو بٹائی پر دینا۔ جس کی بعد میں اجازت دے دی گئی) سے اور معاومہ (بیع سنین یعنی چند سالوں کی فصل کا پیشگی سودا چکا لینے) سے اور ثنیا (سودا چکاتے وقت چند درختوں یا کھیتی کا کچھ حصہ مستثنیٰ کرلینے) سے منع فرمایا اور بیع عرایا (چھوٹے پیمانے پر بیع مزابنۃ جس میں غریبوں کی ضرورت کا لحاظ رکھا گیا ہے) کی اجازت دی۔ (بخاری، کتاب المساقات، باب الرجل یکون لہ ممرٌّ او شرب فی الحائط، مسلم، کتاب البیوع۔ باب النہی عن المحاقلۃ) اور عرایا میں جو رخصت ہے وہ پانچ وسق (اندازاً بیس من) تک ہے۔ (مسلم، کتاب البیوع، باب تحریم الرطب بالتمر الا فی العرایا) ٢١۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ دور جاہلیت میں لوگ حبل الحبلہ تک اونٹ کے گوشت کی سودا بازی کرتے اور حبل الحبلہ یہ ہے کہ اونٹنی جنے پھر اس کا بچہ حاملہ ہو اور وہ جنے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس قسم کی بیع سے منع فرما دیا۔ (مسلم، کتاب البیوع، باب تحریم بیع الحبل الحبلۃ۔۔ بخاری کتاب البیوع، عنوان باب) ٢٢۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آپ نے ادھار کی ادھار سے (یعنی دونوں طرف ادھار) بیع کرنے سے منع فرمایا (دار قطنی بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب البیوع۔ باب المنہی عنہا من البیوع۔ فصل ثانی ) ٢٣۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ نے بیع الحصاۃ (کنکریاں پھینکنے کی بیع) اور دھوکے کی بیع سے منع فرمایا۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب بیع الغرر۔۔ مسلم، کتاب البیوع، باب بطلان بیع الحصاۃ والبیع الذی فیہ غرر) ٢٤۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں دو قسم کی بیع سے منع کیا گیا ایک ملامسہ اور دوسری منابذہ اور ملامسہ یہ ہے کہ دونوں میں سے ہر ایک بلا سوچے سمجھے دوسرے کا کپڑا چھوئے اور منابذہ یہ ہے کہ ہر ایک اپنا کپڑا دوسرے کی طرف پھینک دے۔ اور کوئی دوسرے کا کپڑا نہ دیکھے (اور اس طرح یہ بیع لازم ہوجائے) (بخاری، کتاب البیوع، باب الملامسۃ والمنابذۃ۔۔ مسلم۔ کتاب البیوع۔ باب ابطال بیع الملامستہ والمنابذۃ) ٢٥۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع نجش (بائع کی طرف سے مقررہ لوگ جو خریدار کو زیادہ قیمت ادا کرنے پر راغب کرسکیں۔ نیز چڑ ھی کی بولی) سے منع فرمایا۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب النجش) ٢٦۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ نے لاچار آدمی کی سودا بازی سے فائدہ اٹھانے سے اور دھوکہ کی بیع سے اور پھلوں کے پکنے سے پہلے ان کی سودا بازی سے منع فرمایا۔ (ابو داؤد، کتاب البیوع، باب ماجاء فی بیع المضطر) ٢٧۔ سیدنا عمرو بن شعیبص اپنے باپ سے اپنے دادے سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ہمیں بیع عربان (بیعانہ کی ضبطی والے سودے) سے منع فرمایا۔ (مؤطا، کتاب البیوع، باب بیع العربان) ٢٨۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب آپ مدینہ تشریف لائے تو لوگ پھلوں کے ایک یا دو یا تین سال کے لیے پیشگی سودے کرلیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو کوئی کسی چیز کا پیشگی سودا کرے تو اسے چاہیے کہ مقررہ ناپ میں، مقررہ وزن میں اور مقررہ مدت تک سودا کرے۔‘‘ (بخاری، کتاب السلم، باب السلم فی کیل معلوم۔۔ مسلم، کتاب المساقات، باب السلم) ٢٩۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو شخص بیع سلم کرے تو مال پر قبضہ کرنے سے پہلے کسی دوسرے کی طرف یہ سودا منتقل نہ کرے۔‘‘ (ابو داؤد۔ کتاب الاجارۃ، باب السلف لایحول) اب ہم مختلف عنوانات کے تحت احادیث درج کرتے ہیں : (١) شرح منافع : محمد بن سیرین (تابعی) فرماتے ہیں کہ دس کا مال گیارہ میں بیچنے میں کوئی قباحت نہیں اور جو خرچہ اس پر پڑا ہے اس پر بھی یہی منافع لے سکتا ہے۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب من اجری امرالامصار علی مایتعارفون) (٢) واحد کلام : سیدنا قیلہ رضی اللہ عنہا ام انمار کہتی ہیں کہ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں خرید و فروخت کیا کرتی ہوں اور جو چیز مجھے خریدنا ہوتی ہے اس کے کم دام لگاتی ہوں۔ پھر دام بڑھاتے بڑھاتے اس قیمت پر آ جاتی ہوں جو میرا مقصود ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی چیز بیچنا ہو تو زیادہ دام کہتی ہوں اور پھر کم کرتے کرتے اپنے مقصود پر آ جاتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قیلہ! یہ کام اچھا نہیں۔ جو چیز جتنے کو بیچنا چاہتی ہو اتنے ہی دام کہہ دو۔ لینے والا چاہے گا تو لے لے گا ورنہ نہیں اور جو چیز خریدو اس کی بھی ایک ہی قیمت کہہ دو، دینے والا چاہے تو لے لے ورنہ نہ لے۔‘‘ (ابن ماجہ، ابو اب التجارات، باب السوم) (٣) السابق فالسابق : سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ اور عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ دونوں کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب دو صاحب اختیار ایک ہی چیز خریدیں تو وہ چیز اس کی ہوگی جس نے پہلے خریدی۔‘‘ (ابن ماجہ۔ کتاب البیوع۔ باب السابق فالسابق) (٤) قیمت بتانا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’مال کی قیمت صاحب مال ہی لگانے کا زیادہ حقدار ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب البیوع۔ باب صاحب السلعۃ احق بالسوم) (٥) غائب چیز کا سودا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے کوئی ایسی چیز خریدی جسے اس نے دیکھا نہ ہو تو دیکھنے کے بعد اسے اختیار ہے کہ وہ سودا بحال رکھے یا فسخ کر دے۔‘‘ (دار قطنی بیہقی بحوالہ فقہ السنہ ج ٢ ص ١٣٦) (٦) قیمت میں اختلاف : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب بائع اور مشتری میں اختلاف ہوجائے اور ان میں کوئی شہادت یا ثبوت موجود نہ ہو تو اس شخص کی بات معتبر ہوگی جو مال کا مالک ہے یا پھر وہ سودا چھوڑ دیں۔‘‘ (ترمذی ابو اب البیوع، باب اذا اختلف البیعان) (٧) ناپ تول کی مزدوری بائع پر ہے : سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تو بیچے تو ناپ کر دے اور خریدے تو ناپ کرلے۔‘‘ (بخاری، کتاب البیوع۔ باب الکیل علی البائع والمعطی) (٨) خرید کردہ مال کا تاوان : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بیع کے وقت جو مال موجود تھا (اگر مشتری اسے بائع کے پاس چھوڑ جائے) اور وہ تلف ہوجائے تو تاوان خریدار پر پڑے گا۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب من اشتری متاعا اودابۃ فوضعہ عندالبائع) (٩) کج بحث جھگڑالو : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’اللہ کے ہاں سب سے ناپسندیدہ شخص کج بحث جھگڑالو ہے (جو خواہ مخواہ جھگڑے کا پہلو پیدا کرلیتا ہے۔)‘‘ (بخاری، کتاب المظالم۔ باب قول اللہ و ھوالد الخصام) (١٠) ہبہ کردہ چیز کو خریدنا : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک گھوڑا مجاہد کو دیا۔ اس نے وہ گھوڑا کمزور کردیا اور بازار میں فروخت کرنے کے لیے لے آیا۔ میں نے چاہا کہ اب یہ سستے داموں مل رہا ہے تو خرید لوں۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اسے مت خریدنا خواہ وہ تجھے ایک درہم میں دے دے کیونکہ اپنے صدقہ کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے پھر اسے چاٹ جاتا ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الہبہ، باب لایحل لاحدان یرجع فی ھبتہ و صدقتہ) (١١) غیر موجود چیز کا سودا : حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایسی چیز بیچنے سے منع فرما دیا، جو میرے پاس موجود نہ ہو۔ (ترمذی، ابو اب البیوع، باب ماجاء فی الکراھیۃ مالیس عندہ ) (١٢) راہ میں سودا نہ کیا جائے : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ غلہ وغیرہ کے قافلوں کو آگے جا کر مت ملو۔ جو کوئی آگے جا کر مال خریدے اور بعد میں مال کا مالک منڈی میں آئے تو اسے سودا فسخ کرنے کا اختیار ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب البیوع، باب تحریم تلقی الجلب) (١٣) ناپ تول کے بغیر سودا نہ کیا جائے : سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور (یا کسی دوسرے غلہ) کے ڈھیر کی سودا بازی سے منع فرمایا جس کا اس کے معروف پیمانہ سے ناپ معلوم نہ ہو۔‘‘ (مسلم۔ کتاب البیوع باب تحریم صبرالتمر) (١٤) قبضہ سے پہلے آگے سودا نہ کیا جائے : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لوگ بازار کے بالائی حصہ میں سودا کرتے پھر وہیں بیچ دیتے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی مقام پر بیچنے سے منع فرمایا۔ یہاں تک کہ اس غلہ کو منتقل نہ کیا جائے (یعنی اپنے قبضہ میں نہ کرلیا جائے۔ (بخاری کتاب البیوع، باب ما ذکر فی الاسواق۔۔ مسلم، کتاب البیوع، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں جو لوگ بن ماپے تولے اناج کے ڈھیر خریدتے انہیں مار پڑتی تھی۔ اس لیے کہ جب تک وہ اپنے گھر نہ لے جائیں مال نہ بیچیں۔ (بخاری کتاب البیوع، باب مایذکر فی بیع الطعام والحکرۃ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص غلہ خریدے تو جب تک اس کے پورا ہونے کی تسلی نہ کرلے اسے فروخت نہ کرے۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ جب تک اسے ناپ نہ لے۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب الکیل علی البائع والمعطی) (١٥) بائع اور مشتری کے درمیان تیسرا آدمی سودا نہ کرے : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے اور نہ اپنے بھائی کی منگنی کی بات کے درمیان منگنی کی بات کرے۔ ہاں اس کی اجازت سے ایسا کرسکتا ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب البیوع، باب تحریم بیع الرجل علیٰ بیع اخیہ) (١٦) سودا خراب کرنا : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’کوئی مسلمان اپنے بھائی کے چکائے ہوئے سودے پر سودا نہ چکائے۔ (یعنی زیادہ رقم کا لالچ دے کر سودا خراب نہ کرے۔)‘‘ (مسلم، کتاب البیوع، باب تحریم بیع الرجل علی بیع اخیہ و سومہ) (١٧) قیمت کم کر کے دوسروں کو نقصان پہنچانا : سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بازار میں حاطب رضی اللہ عنہ بن ابی بلتعہ کے پاس سے گزرے جو بازاری قیمت سے کم قیمت پر منقیٰ بیچ رہے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں فرمایا ’’یا تو نرخ زیادہ کرو یا ہمارے بازار سے اٹھ جاؤ۔‘‘ (موطا، کتاب البیوع، باب الحکرۃ والتربص) تاہم بعض علماء کہتے ہیں کہ چیز کے مالک کو اپنی چیز کم داموں پر بیچنے کا اختیار ہے۔ (حوالہ ایضاً) بشرطیکہ اس سے دوسروں کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو۔ (١٨) کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا ظلم ہے : ابو حرہ رقاشی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’خبردار! ظلم نہ کرو، خبردار! کسی کا مال دوسرے کے لیے اس کی رضامندی کے بغیر حلال نہیں۔‘‘ (بیہقی، دارقطنی بحوالہ مشکوۃ، کتاب البیوع، باب الغصب والعاریۃ۔ فصل ثانی) (١٩) قرض دینے کے بعد مقروض سے سودا بازی نہ کی جائے : (٢٠) جس مال پر قبضہ نہیں ہوا اس کا نفع جائز نہیں : سیدنا عمرو بن شعیب اپنے باپ سے، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’(١) پیشگی دیا ہوا قرض اور بیع جائز نہیں (٢) ایک بیع میں دو صورتیں جائز نہیں (نقد قیمت کم ادھار زیادہ) (٣) جس مال پر قبضہ نہ ہوا ہو (نہ رقم ادا کی اس کا منافع مشتری کو) حلال نہیں (٤) اور جو چیز تمہارے پاس نہ ہو اس کا سودا نہ کرو۔‘‘ (ابو داؤد، کتاب البیوع، باب فی الرجل یبیع مالیس عندہ) (٢١) ملاوٹ والی چیز کو الگ کر کے بیچا جائے : فضالہ رضی اللہ عنہ بن عبید کہتے ہیں کہ خیبر کے دن میں نے ایک ہار بارہ دینار میں خریدا۔ جس میں سونا اور نگینے تھے۔ میں نے انہیں الگ الگ کیا تو سونا ہی بارہ دینار سے زیادہ مالیت کا پایا۔ میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کوئی چیز جب تک الگ الگ نہ کرلی جائے اس کی خرید و فروخت نہ کی جائے۔‘‘ (مسلم، کتاب المساقاۃ والمزارعۃ باب الربا) (٢٢) چوری کے مال کی بیع : (١) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’جس شخص نے اپنا مال بعینہ کسی کے پاس پا لیا وہ اس کا زیادہ حقدار ہے اور مسروقہ مال خریدنے والا اس شخص کو ڈھونڈے جس نے اس کے پاس مال بیچا تھا۔‘‘ (نسائی، ابو داؤد، کتاب الاجارۃ، باب فی الرجل یجد عین مالہ عندر جل) (٢) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے چوری کا مال خریدا اور وہ جانتا تھا کہ وہ چوری کا مال ہے تو وہ چوری کے گناہ اور اس کی سزا میں برابر کا شریک ہے۔‘‘ (بیہقی بحوالہ فقہ السنۃ ج ٣ ص ١٤٦) (٢٣) سودا واپس موڑ لینا : عمرو بن شعیب اپنے باپ سے، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ ’’بائع اور مشتری جب تک جدا نہ ہوں، مختار ہیں۔ الا یہ کہ خیار کی شرط کرلی جائے اور دونوں میں سے کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس خوف سے جلد جدا ہونے کی کوشش کرے کہ کہیں سودا واپس نہ ہوجائے۔‘‘ (ترمذی، ابو اب البیوع، باب البیعان بالخیار) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص سودا واپس موڑ لے (قیامت کے دن) اللہ اس کی لغزشیں واپس لے لے گا۔‘‘ (ابو داؤد، کتاب الاجارۃ فی فضل الاقالۃ) (٢٤) مسجد میں خرید و فروخت کرنا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تم مسجد میں کسی کو کوئی چیز بیچتا یا خریدتا دیکھو تو اسے کہو۔ اللہ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے۔ اور جب کسی کو مسجد میں کوئی گمشدہ چیز ڈھونڈتے دیکھو تو اسے کہو۔ اللہ کرے تمہیں وہ نہ ملے۔‘‘ (ترمذی، ابو اب البیوع، باب النہی عن البیع فی المسجد) (٢٥) نمازوں کی اوقات میں خرید و فروخت : جمعہ کی اذان کے بعد لین دین یا دوسرے مشاغل حرام ہیں۔ (سورہ جمعہ : ٩) یہی صورت عام نمازوں کے لیے بھی ہے۔ (٢٦) نیلام : سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ٹاٹ اور ایک پیالہ بیچنا چاہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : کون یہ ٹاٹ اور پیالہ خریدتا ہے؟ ایک شخص نے کہا : میں یہ دونوں چیزیں ایک درہم میں لیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : کوئی ایک درہم سے زیادہ دیتا ہے؟ پھر ایک شخص نے ان چیزوں کے آپ کو دو درہم دیئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیچ دیں۔ (ترمذی، ابو اب البیوع، باب ماجاء فی من یزید) (٢٧) شراکت : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے۔ ’’دو شریکوں کا تیسرا میں ہوتا ہوں جب تک کوئی ان میں سے خیانت نہ کرے۔ پھر جب ان میں سے کوئی خیانت کرتا ہے تو میں درمیان سے نکل جاتا ہوں۔‘‘ (ابو داؤد، کتاب البیوع، باب فی الشرکہ)۔۔ اور رزین نے یہ اضافہ کیا ’’اور (اللہ کی جگہ) شیطان آ جاتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ، کتاب البیوع، باب الشرکۃ والوکالۃ فصل ثالث) [٤٩] بظاہر سود، جوا اور رشوت، ان تینوں میں باہمی رضامندی پائی جاتی ہے۔ لیکن یہ رضامندی اضطراری ہوتی ہے مثلاً قرض لینے والے کو اگر قرض حسنہ مل سکتا ہو تو وہ کبھی سود پر قرضہ لینے پر آمادہ نہ ہوگا۔ جواری اس لیے رضامند ہوتا ہے کہ ہر ایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے۔ ورنہ اگر کسی کو ہارنے کا خطرہ ہو تو وہ کبھی جوا نہ کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہو کہ اسے رشوت دیئے بغیر بھی حق مل سکتا ہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ علاوہ ازیں سودے بازی میں اگر ایک فریق کی پوری رضامندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ شرعی اصطلاح میں اسے بیع خیار کہتے ہیں۔ [٥٠] خود کشی کی حرمت :۔ اس جملہ کے تین مطلب ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ اسے سابقہ مضمون سے متعلق سمجھا جائے۔ اس صورت میں اس کا معنی یہ ہوگا کہ باطل طریقوں سے دوسروں کا مال ہضم کر کے اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔ اور اگر اسے الگ جملہ سمجھا جائے تو پھر اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ ایک دوسرے کو قتل نہ کرو یعنی قتل ناحق، جو حقوق العباد میں سب سے بڑا گناہ ہے۔ اور قیامت کو حقوق العباد میں سب سے پہلے قتل ناحق کے مقدمات کا ہی فیصلہ ہوگا۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ خودکشی نہ کرو۔ کیونکہ انسان کی اپنی جان پر بھی اس کا اپنا تصرف ممنوع اور ودکشی گناہ کبیرہ ہے۔ چنانچہ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تم سے پہلے لوگوں میں سے کسی کو ایک پھوڑا نکلا۔ جب اسے تکلیف زیادہ ہوئی تو اس نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکالا اور پھوڑے کو چیر دیا۔ پھر اس سے خون بند نہ ہوا یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’میں نے اس پر جنت کو حرام کردیا۔‘‘ (یہ حدیث بیان کرنے کے بعد) حسن نے اپنا ہاتھ مسجد کی طرف بڑھایا اور کہا اللہ کی قسم مجھ سے یہ حدیث جندب (بن عبداللہ بجلی) نے بیان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس مسجد میں۔ (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب غلظ تحریم قتل الانسان نفسہ)