يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ
چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور (ف 3) اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کرنے والا ہے ۔ اگرچہ کافر ناپسند کریں
[١٠] اسلام کو نیست ونابود کرنے کے لیے دشمن اقوام کے منصوبے :۔ اس آیت کی مخاطب ساری ہی دشمن اسلام قومیں ہیں۔ خواہ وہ عیسائی ہوں یا یہودی یا مشرکین ہوں یا منافقین۔ فتح مکہ سے پہلے تک یہ سب طاقتیں یہی سمجھ رہی تھیں کہ اسلام بس ایک ٹمٹماتا چراغ ہے۔ جو ہوا کے ایک ہی جھونکے سے بجھ سکتا ہے اور بجھ جائے گا۔ بلکہ فتح مکہ کے بعد یہ تاثر پوری طرح زائل نہ ہوا۔ فتح مکہ کے بعد قبیلہ ثقیف اور ہوازن نے اسی ارادہ سے جنگ کی کہ اسلام کو ملیا میٹ کردیں۔ پھر اس کے بعد ایک عامر نامی عیسائی راہب نے منافقین مدینہ سے ساز باز کی اور قیصر روم کو مسلمانوں پر چڑھا لانے کے لیے روانہ ہوگیا۔ جس کے نتیجہ میں غزوہ تبوک بپا ہوا۔ روایات کے مطابق اس موقع پر عیسائیوں کے دو لاکھ افراد پر مشتمل لشکر کا آنا متوقع تھا۔ لیکن اللہ نے انہیں میدان مقابلہ میں آنے کی توفیق ہی نہ دی۔ سب اسلام دشمن طاقتیں آغاز اسلام سے لے کر جلتی بھنتی اور کڑھتی ہی رہیں اور انجام کار یہ ہوا کہ اسلام کی روشنی سارے عرب پھر اس کے بعد ساری دنیا میں پھیل گئی۔ واضح رہے کہ یہ آیات اس دور میں نازل ہوئیں جبکہ اسلام کا مستقبل بالکل مبہم تھا اور بعض غیر جانبدار قسم کے قبائل اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ دیکھیے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟