إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنْيَانٌ مَّرْصُوصٌ
بے شک اللہ ان لوگوں سے محبت رکھتا ہے ۔ جو اس کی راہ میں اس طرح قطار باندھ کر لڑتے ہیں کہ گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں
[٣] جہاد کے سلسلہ میں تین ہدایات :۔ یہ ارشاد الٰہی تو ایک عام حکم کا درجہ رکھتا ہے کہ قول و فعل کا تضاد اللہ کے ہاں سخت ناپسندیدہ چیز ہے اور اس کا خصوصی پہلو یہ ہے کہ مکی زندگی کے دوران جبکہ مسلمانوں کو صرف صبر اور برداشت کا حکم تھا کئی مسلمان یہ آرزو کرتے تھے کہ انہیں کافروں سے لڑائی کی اجازت ملنی چاہیے اور اگر ہمیں یہ اجازت مل جائے تو ہم کافروں کو تہس نہس کردیں۔ مگر جب اجازت مل گئی تو بعض لوگ یوں کہنے لگے کہ پروردگار! ہم پر قتال کو فرض کرنے کی اتنی بھی کیا جلدی پڑی تھی (٤: ٧٧) اور کچھ لوگوں کے تو یہ حکم سن کر رنگ ہی اڑ گئے۔ انہیں یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ بس ابھی موت آئی کہ آئی (٤٧: ٢٠) قول و فعل میں اس قدر تضاد اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ اور جو بات اللہ کو پسند ہے وہ یہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ جہاد کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تین شرطیں بیان فرمائیں۔ ایک یہ کہ یہ جہاد محض اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے ہو، کوئی دوسری غرض اس سے وابستہ نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ دشمن کے سامنے اس طرح صف بندی کی جائے کہ اس میں کوئی رخنہ باقی نہ رہنے پائے۔ تیسرے یہ کہ تمہارے پائے ثبات میں کسی طرح کی لغزش یا تزلزل نہ آنے پائے۔ اور اپنی جگہ پر اس قدر جم کر مضبوطی سے کھڑے ہو کہ یوں معلوم ہو، جیسے وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے۔