مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ
کھجور کا جو پیر (ف 1) تم نے کاٹا یا اسے اپنی جڑ پر کھڑا رہنے دیا ۔ سو اللہ کے حکم سے تھا ۔ اور اس لئے تھا کہ خدا فاسق لوگوں کو رسوا کرے
[٤] محاصرہ کے وقت مسلمانوں کا درخت کاٹنا اور مخالفین کا شورو غوغا :۔ مدینہ کے گرد بنو نضیر کا ایک نہایت خوبصورت باغ تھا۔ جسے بویرہ کہتے تھے اس میں بہت سے کھجوروں کے درخت تھے۔ جب مسلمانوں نے بنونضیر کا محاصرہ کرنا چاہا تو یہ درخت کام میں آڑے آرہے تھے۔ چنانچہ جو جو درخت رکاوٹ بن سکتے تھے مسلمانوں نے ان کو کاٹ کر اور جہاں زیادہ گنجان تھے وہاں انہیں آگ لگا کر محاصرہ کرنے کے لیے اپنی راہ صاف کرلی۔ جب آگ کے شعلوں نے اس باغ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وقت سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے یہ شعر پڑھا۔ وَھَانَ عَلٰی سَرَاۃِ بَنِی لُؤیٍّ۔۔ حَرِیْقٌ بالْبُوَیْرَۃِ مُسْتَطِیْرٌ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب حدیث بنی نضیر) یعنی بنی لؤی (قریش) کے سردار یہ بات معمولی سمجھ کر برداشت کر رہے تھے کہ بویرہ کا باغ پوری طرح آگ کی لپیٹ میں آکر جل رہا ہے۔ جب راستہ صاف کرنے کی خاطر مسلمانوں نے یہ درخت کاٹے تو اس پر مخالفین نے ایک شور بپا کردیا کہ دیکھو مسلمان درختوں کو کاٹ کر فساد فی الارض کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ اصلاح فی الارض کے دعویدار بنے پھرتے ہیں۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ تم نے جو بھی کھجوروں کا درخت کاٹا یا اسے اپنی جڑوں پر برقرار رہنے دیا تو یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے تھا اور واقعہ بھی یہی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو جنگ کے موقعوں پر درخت کاٹنے سے منع کیا تھا اور اسے فساد فی الارض قرار دیا تھا۔ مگر بنو نضیر کی مسلسل بدعہدیوں کی وجہ سے ان کا استیصال ضروری ہوگیا۔ لہٰذا اس خاص موقعہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی تھی۔ اور چونکہ اس اجازت کا ذکر قرآن میں کہیں مذکور نہیں جس سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کے علاوہ بھی وحی ہوتی تھی۔ جسے عموماً وحی خفی یا وحی غیر متلو کہا جاتا ہے اور دوسرا مسئلہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے جو تخریبی کاروائی جنگی ضروریات کے لیے ناگزیر ہو وہ فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آتی۔ [٥] بنو نضیر کا اخراج :۔ بنوقینقاع کی جلاوطنی کے بعد بنو نضیر بھی مدینہ سے جلاوطن اور رسوا کرکے نکال دیئے گئے۔ رہے بنو قریظہ، تو ان کا جو حشر ہوا اس کی تفصیل سورۃ احزاب کی آیت نمبر ٢٦ کے حاشیہ میں گزر چکی ہے۔ نیز درج ذیل حدیث میں بھی اجمالاً ان کا ذکر آگیا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بنونضیر اور بنو قریظہ نے جنگ کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کو تو جلا وطن کیا اور بنوقریظہ کو وہیں رہنے دیا اور ان پر احسان کیا تاآنکہ بنوقریظہ نے جنگ کی (جنگ احزاب کے بعد) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مردوں کو قتل کردیا اور ان کی عورتوں، بچوں اور اموال کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا۔ ماسوائے ان لوگوں کے جو پہلے ہی آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں امن دیا اور وہ مسلمان ہوگئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام یہود کو جلاوطن کیا۔ ان میں عبداللہ بن سلام کے قبیلہ بنوقینقاع کے یہود بھی شامل تھے اور بنو حارثہ بھی۔ غرض مدینہ کے سب یہودیوں کو جلا وطن کردیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب حدیث بنی نضیر۔ مسلم۔ کتاب الجہاد۔ باب اجلاء الیہود من الحجاز)