أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ ۚ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
کیا تم اس سے ڈرگئے ۔ کہ کان میں بات کہنے سے پہلے خیرات لاکر آگے رکھو ۔ پھر جب تم نے یہ نہ کیا ۔ اور اللہ نے تمہیں معاف کردیا ۔ تو اب نماز پڑھو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول (ف 1) کی اطاعت کرو ۔ اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے
[١٧] آپ سے سرگوشی کی عام اجازت کے نقصانات :۔ اس حکم سے بہت جلد وہ مقاصد حاصل ہوگئے۔ جن کی بنا پر یہ حکم دیا گیا تھا۔ یہ حکم اس وقت نازل ہوا جب عرب بھر کے کفار مسلمانوں کی دشمنی پر اتر آئے تھے۔ اگر کوئی شخص آپ سے سرگوشی کرتا۔ تو فوراً منافق یہ مشہور کردیتے کہ یہ شخص فلاں قبیلے کے مدینہ پر حملہ کی تیاریوں کی خبر لایا تھا۔ پھر ایسی افواہیں بہت جلد مدینہ میں گشت کرنے لگتیں اور ایک ہراس سا پھیل جاتا۔ اس کا دوسرا نقصان یہ تھا کہ خواہ مخواہ بدظنی کے احتمال پیدا ہوجاتے تھے اور تیسرا اور سب سے بڑا نقصان یہ تھا کہ لوگ معمولی اور بے کار قسم کی باتوں میں آپ کا قیمتی وقت ضائع کرتے رہتے تھے۔ سرگوشیاں کرنے والے اکثر چوہدری ٹائپ کے مالدار منافق ہی ہوا کرتے تھے۔ صدقہ کے حکم کے بعد منافقین تو بخل کی وجہ سے رک گئے اور مسلمان ویسے ہی سنبھل گئے۔ یہ حکم زیادہ سے زیادہ دس دن تک بحال رہا اور اس پر صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک بار عمل کیا۔ صدقہ کی پابندی کا خاتمہ :۔ جب مندرجہ بالا مقاصد حاصل ہوگئے تو اللہ نے اس حکم کو منسوخ فرما دیا۔ اور ساتھ ہی مسلمانوں کو تاکید کی گئی کہ نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا پورا پورا خیال رکھیں اور اللہ اور اس کے رسول کی سچے دل سے اطاعت بجالائیں اور ایسا کوئی کام نہ کریں جو ان کی منشا کے خلاف ہو۔