سورة المجادلة - آیت 12

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ ۚ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مومنو ! جب تم رسول کے کان میں بات کہنا چاہو تو کان میں بات کرنے سے پہلے کچھ خیرات آگے رکھ لیا کرو ۔ یہ تمہارے حق میں بہتر اور زیادہ صفائی کا موجب ہے ۔ پھر اگر تم پاؤ تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٦] آپ سے سرگوشی کرنے پر صدقہ کی عارضی پابندی اور اس کے فوائد :۔ بعض منافقوں کی یہ عادت تھی کہ محض اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے اور بڑائی جتانے کی خاطر آپ سے سرگوشی شروع کردیتے اور بے کار باتوں میں آپ کا اتنا وقت ضائع کردیتے تھے جس سے دوسروں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کا وقت نہ ملتا تھا۔ یا کسی وقت آپ خلوت چاہتے تو آپ کو ایسا موقع میسر نہ آتا تھا۔ پھر منافقوں کی دیکھا دیکھی کچھ مسلمان بھی ایسا کرنے لگے تھے اور آپ ہر ایک کی بات سننے کو تیار ہوجاتے اور مروت اور اخلاق کی وجہ سے کسی کو منع نہ فرماتے اس سے کئی قسم کے نقصان ہو رہے تھے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے خود ایسی آزادی پر پابندی لگا دی اور فرمایا کہ جو شخص آپ سے سرگوشی کرنا چاہے وہ کچھ نہ کچھ پہلے صدقہ کرے۔ تب اسے سرگوشی کی اجازت ہوگی اور اس حکم میں بہت سے فائدے تھے۔ مثلاً محتاجوں کی خدمت، صدقہ کرنے والے کے نفس کا تزکیہ، کسی کو بدظنی پیدا نہ ہونا، مخلص اور منافق کی تمیز اور سرگوشی کرنے والوں کی تعداد میں کمی واقع ہونا۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس حکم میں استثناء صرف یہ تھا کہ اگر فی الواقع کوئی شخص انتہائی نادار ہو اور اسے سرگوشی کی ضرورت بھی حقیقی ہو تو وہ صدقہ دیئے بغیر آپ سے سرگوشی کرسکتا ہے اس حکم سے منافقوں نے اپنے طبعی بخل کی وجہ سے یہ عادت چھوڑ دی۔ اور مسلمان بھی سمجھ گئے کہ زیادہ سرگوشی کرنا اللہ کو پسند نہیں اور اس کے کیا کچھ نقصانات ہیں۔