سورة الحديد - آیت 21

سَابِقُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اپنے رب کی معانی اور جنت کی طرف دوڑو ۔ اس جنت کا عرض آسمان اور زمین کے عرض کی برابر ہے ۔ ان کے لئے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں ۔ یہ اللہ کا فضل ہے ۔ جسے چاہے دے اور اللہ کا فضل بڑا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٦] جنت کی وسعت :۔ یہاں یہ فرمایا کہ جنت کا عرض آسمان اور زمین کے عرض کے برابر ہے اور سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ١٣٣ میں فرمایا کہ جنت کا عرض تمام آسمانوں اور زمین کے عرض کے برابر ہے۔ حالانکہ ہر آسمان سے دوسرے آسمان تک بھی لاکھوں میل کا فاصلہ ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں جنت کا رقبہ بتانا مقصود نہیں ہے بلکہ یہ الفاظ محاور تاً استعمال ہوئے ہیں اور اس سے مقصود صرف جنت کی وسعت کا تصور دلانا ہے۔ جو یہ ہے کہ زمین و آسمان کو تو تم دیکھ ہی رہے ہو جنت ان سب آسمانوں اور زمین سے بھی بہت بڑی ہوگی۔ لہٰذا تم دنیا کے بجائے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ اور اگر تم سچے دل سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو تمہارے گناہ اور لغزشیں بھی اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا اور اتنی وسیع و عریض جنت بھی عطا فرمائے گا۔ رہی یہ بات ہے کہ جس جنت کی وسعت یہاں بیان ہو رہی ہے یہ سب اہل جنت کا حق ہوگا، یا ہر جنتی کو اتنی وسیع و عریض جنت ملے گی؟ تو استقصاء سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہر جنتی کی ایک مخصوص رہائش گاہ ہوگی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات کو جنت میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا محل دیکھا تھا۔ البتہ سیروتفریح کے لحاظ سے ہر جنتی اتنی وسیع و عریض جنت میں جہاں چاہے گا جاسکے گا۔ اور اس آمدورفت میں اسے کوئی مشکل حائل نہ ہوگی نہ ہی اسے گاڑیوں یا جہازوں کی ضرورت پیش آئے گی۔ [٣٧] جنت صرف اللہ کی مہربانی سے ملے گی :۔ یہ مضمون پہلے بھی متعدد مقامات پر گزر چکا ہے کہ جنت کسی شخص کو اس کے اعمال کے بدلہ کے طور پر نہیں بلکہ محض اللہ کے فضل و کرم سے ملے گی۔ اعمال صالحہ کا بدلہ زیادہ سے زیادہ یہی ہوسکتا ہے کہ اسے دوزخ کے عذاب سے بچا لیا جائے اور یہ بھی کوئی معمولی بات نہیں بلکہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کسی شخص کو اس کا عمل بہشت میں نہیں لے جاسکتا ؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )! کیا آپ کے اعمال بھی آپ کو بہشت میں نہیں لے جا سکیں گے؟‘‘ فرمایا : ’’ہاں میرے اعمال بھی مجھے بہشت میں نہیں لے جاسکیں گے الا یہ کہ اللہ اپنے فضل اور اپنی رحمت سے مجھے ڈھانپ لے‘‘ (بخاری۔ کتاب المرضیٰ۔ باب تمنی المریض الموت)