نَحْنُ قَدَّرْنَا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ
ہم نے تم میں موت کا مقدر (ف 1) (مقرر) کیا اور ہم اس بات سے عاجز نہیں
[٢٨] انسان جو نطفہ رحم مادر میں ٹپکاتا ہے۔ اس کا ایک ایک قطرہ لاکھوں خوردبینی جراثیم پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان میں سے صرف ایک جرثومہ نسوانی بیضہ سے مل کر حمل کے استقرار کا سبب بنتا ہے باقی سب متحرک جرثومے رحم مادر سے خارج ہوتے ہی مر جاتے ہیں۔ استقرار حمل کے بعد بسا اوقات عورت کو خون جاری ہوجاتا ہے اور حمل ضائع ہوجاتا ہے۔ بعض دفعہ اسقاط ہوجاتا ہے اور بعض دفعہ بچہ پیٹ میں ہی مرجاتا ہے اور کبھی پیدا ہوتے ہی مرجاتا ہے اور جو زندہ پیدا ہوجاتے ہیں۔ ان کے سر پر بھی موت کی تلوار لٹکتی رہتی ہے معلوم نہیں کہ کس وقت رگ جان کو کاٹ ڈالے۔ کوئی بچپن میں ہی مرجاتا ہے کوئی جوانی میں اور کوئی بڑھاپے میں، اور کوئی سالہا سال بڑھاپے میں بستر مرگ پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتا ہے۔ گویا موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ اور اس کا وقت بھی پہلے سے طے شدہ ہے۔ نہ اس لمحہ سے پہلے آسکتی ہے اور نہ اس کے وقت میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت نہ موت کو ٹال سکتی ہے نہ اس کا وقت بدل سکتی ہے۔ اب بتاؤ تمہاری زندگی اور تمہاری موت کے بارے میں اللہ کے سوا تمہارا اپنا یا کسی دوسرے کا کچھ اختیار ہے؟ پھر بھی تمہیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ اللہ رب العالمین جو چاہے کرتا ہے اور کرسکتا ہے۔