الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ ۚ هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَإِذْ أَنتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ۖ فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَىٰ
جو لوگ کبیرہ گناہوں اور بےحیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں سوائے نزدیک ہوجائے کے ان گناہوں سے بےشک تیرے رب کی بخشش (ف 1) بڑی وسیع ہے ۔ وہ تمہیں خوف جانتا ہے ۔ جب اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں بچے تھے ۔ سو تم اپنے نفسوں کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ پرہیز گاروں کو وہی خوب جانتا ہے
[٢٢] اس فقرہ کی تشریح و تفسیر کے لیے سورۃ نساء کی آیت نمبر ٣١ کا حاشیہ ٥١، ٥٣ ملاحظہ فرمائیے۔ [٢٣] یعنی یہ اس کی مغفرت کی وسعت ہی کا نتیجہ ہے کہ اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے بچتے رہے تو وہ ان گناہوں سے متعلق تمہارے خیالات، ابتدائی اقدامات تمہاری لغزشیں اور آلودگیاں سب کچھ معاف فرما دے گا۔ حالانکہ ان کی تعداد بڑے گناہوں کی نسبت سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ [٢٤] اپنے منہ میاں مٹھو بننا کیوں غلط ہے؟۔ یعنی کسی بھی شخص کو اپنے تقویٰ اور نیک اعمال پر ناز اور فخر نہیں کرنا چاہئے اور اپنے آپ کو دوسروں سے برتر اور بزرگ نہ سمجھنا چاہئے بلکہ اسے ابتدائ ً اپنی پیدائش پر نظر رکھنی چاہئے کہ وہ کن کن حالتوں سے گزر کر اس مقام تک آیا ہے اور کیا وہ حالتیں اس قابل ہیں کہ ان پر فخر کیا جاسکے۔ مٹی کے بعد اس کی پیدائش پانی کے ایک غلیظ اور حقیر قطرہ سے ہوئی پھر وہ ایک مدت اپنی ماں کے پیٹ کی غلاظتوں میں پرورش پاتا رہا۔ اور اب اگر وہ ایمان لے آیا ہے یا کچھ نیک عمل بجا لاچکا ہے تو اسے اپنے منہ میاں مٹھو بننا کیونکر زیب دیتا ہے۔ پھر اسے یہ بھی معلوم نہیں اور نہ ہی یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ ہے کہ وہ آئندہ زندگی میں کس قسم کے اعمال کرکے مرنے والا ہے کیونکہ زیادہ تر اعتبار تو انہی اعمال کا ہوسکتا ہے جو اس نے اپنی آخری زندگی میں انجام دیئے ہوں اور اس کے ایسے ہی اعمال پر اس کی اخروی جزا و سزا یا فلاح کا انحصار ہوگا جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے : ١۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اور آپ سچے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو وعدہ کیا گیا وہ بھی سچا تھا : ’’ تم میں سے ہر ایک کا مادہ (نطفہ) اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس روز جمع کیا جاتا ہے۔ پھر چالیس دن تک وہ خون کی پھٹکی رہتا ہے۔ پھر چالیس دن تک گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھیجتا ہے اور اسے چار باتیں لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس کے اعمال کیسے ہوں گے؟ رزق کتنا ہوگا ؟ عمر کتنی ہوگی؟ اور آیا وہ نیک بخت ہوگا یا بدبخت؟ پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ پھر (دنیا میں آنے کے بعد) تم میں سے کوئی ایسا ہوتا ہے جو زندگی بھر نیک کام کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ بہشت اس سے ایک ہاتھ کے فاصلہ پر رہ جاتی ہے۔ پھر تقدیر کا لکھا اس پر غالب آتا ہے تو وہ کوئی دوزخیوں کا سا کام کر بیٹھتا ہے اور کوئی بندہ زندگی بھر برے کام کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ دوزخ اس سے ایک ہاتھ کے فاصلہ پر رہ جاتی ہے پھر تقدیر کا لکھا غالب آتا ہے اور وہ بہشتیوں کا سا کام کرتا ہے‘‘ (اور وہ بہشت میں چلا جاتا ہے۔) (بخاری، کتاب بدء الخلق۔ باب ذکر الملائکۃ) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم جنگ خیبر میں موجود تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک ساتھی (قزمان) کے حق میں فرمایا جو اسلام کا دعویٰ کرتا تھا (لیکن حقیقتاً منافق تھا) کہ ’’یہ شخص دوزخی ہے‘‘ یہ شخص خوب جم کر لڑا اور زخمی ہوا حتیٰ کہ بعض لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد مبارک سے متعلق شک پیدا ہونے لگا۔ پھر لوگوں نے اسے اس حال میں دیکھا کہ جب اسے زخموں سے زیادہ تکلیف ہوئی تو اس نے اپنی ترکش میں ہاتھ ڈال کر ایک تیر نکالا اور اس سے اپنی گردن کو زخمی کرکے خودکشی کرلی۔ یہ صورت حال دیکھ کر کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے پاس دوڑتے ہوئے آئے اور عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات سچی کی۔ اس شخص نے خود کشی سے اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا : اٹھ اور لوگوں میں منادی کر دے کہ ’’بہشت میں وہی جائے گا جو مومن ہوگا اور اللہ کی قدرت یہ ہے کہ وہ بدکار آدمی سے بھی اپنے دین کی مدد کرا دیتا ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب المغازی۔ باب غزوۃ خیبر)