إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ
بےشک آسمان کی پیدائش اور رات دن کے آنے جانے میں عقل مندوں کے لئے نشان ہیں (ف ١)
[١٨٩] یعنی عقلمند انسان جب زمین و آسمان کی پیدائش، سورج اور چاند کی گردش اور سیاروں کے احوال، دن رات کی آمدورفت کے مضبوط اور مربوط نظام میں غور کرتا ہے کہ کس طرح سب سیارے ایک معین رفتار اور معین قانون کے تحت فضاؤں میں گردش کر رہے ہیں اور ان کے اس انضباط میں کبھی لمحہ بھر کا بھی فرق نہیں پڑتا تو اسے یہ یقین کرنا پڑتا ہے کہ یہ تمام تر کارخانہ کائنات ایک ہی قادر مطلق اور مختار کل فرمانروا کے ہاتھ میں ہوسکتا ہے۔ جس نے اپنی عظیم قدرت و اختیار سے کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز کو اپنی اپنی حدود میں جکڑ رکھا ہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ وہ حدود سے تجاوز کرسکے۔ اگر اس عظیم الشان کارگاہ کا ایک پرزہ یا کوئی کارندہ اس مالک الملک کی قدرت و تصرف سے باہر ہوتا تو کارخانہ عالم کا یہ مربوط اور مستحکم نظام ہرگز قائم نہ رہ سکتا۔