مَا أُرِيدُ مِنْهُم مِّن رِّزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أَن يُطْعِمُونِ
میں ان سے کچھ روزینہ نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے (کھانا) کھلائیں
[٤٩] اہل عرب غلاموں کی کمائی کھاتے تھے اور اللہ اپنے بندوں کو کھلاتا ہے :۔ دور نبوی کے عرب معاشرہ میں غلام رکھنے کا رواج تھا اور مالک ان سے اپنی خدمت ہی نہیں لیتے تھے بلکہ انہیں کمائی کے لیے بھیجتے اور ان کی کمائی کھاتے تھے۔ گویا غلام ہی ان کا سرمایہ تھے۔ جس کے پاس جتنے زیادہ غلام ہوتے اتنا ہی وہ زیادہ مالدار سمجھا جاتا تھا۔ موجودہ دور میں اس کی مثال فیکٹری سے دی جاسکتی ہے۔ ایک فیکٹری میں اگر دس ملازم ہیں اور دوسری میں سو ہیں تو سو ملازموں کی فیکٹری کا مالک یقیناً زیادہ سرمایہ دار اور مالدار سمجھا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمام انسان اور جن میرے بندے اور غلام ہیں۔ لیکن میں ان کی کمائی نہیں کھاتا نہ ہی مجھے اس کی حاجت ہے، بلکہ رزق تو میں خود سب کو دے رہا ہوں میں لے کیسے سکتا ہوں؟ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے ایک اہم نکتہ معلوم ہوتا ہے جو یہ ہے کہ معبود حقیقی کی شان یہ ہے کہ وہ رزق دیتا ہے لیتا نہیں۔ جبکہ دوسرے معبود اپنے عبادت گزاروں سے رزق اور پیسے لیتے ہیں۔ اگر عبادت گزار اور مرید حضرات اپنے نذرانے اور نیازیں دینا بند کردیں تو ان کی خدائی ایک دن بھی نہ چل سکے۔ یہی دلیل ان کے باطل ہونے کے لیے کافی ہے۔ رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے اگر دوسروں کو عبادت سے منع کیا ہے تو اپنی عبادت کا کیوں حکم دیا ہے؟ کیا اسے اس کی احتیاج ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسے کوئی احتیاج نہیں کیونکہ وہ بے نیاز ہے۔ کسی کے عبادت کرنے یا نہ کرنے سے نہ اس کا کچھ بگڑتا ہے اور نہ سنورتا ہے۔ بلکہ اللہ کی عبادت کرنے اور خالق و مالک کا حق پہچاننے میں ان کا اپنا ہی بھلا ہے جیسا کہ بے شمار آیات و احادیث سے واضح ہے۔