وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
اور میں نے جنوں اور آدمیوں کو صرف اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت (ف 3) کریں
[٤٨] عبادت کا وسیع مفہوم :۔ ساری کائنات میں جن اور انسان ہی تکالیف شرعیہ کی مکلف مخلوق ہے۔ ان کو میں نے دوسروں کی بندگی کے لیے نہیں بلکہ اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس لیے کہ میں ہی ان کا خالق ہوں۔ اب اگر یہ مجھے اپنا خالق تسلیم کرنے کے باوجود بندگی دوسروں کی کرنے لگیں تو ان کی حماقت کی کوئی حد ہے؟ اور دوسرے جب وہ خالق ہی نہیں تو انہیں کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ بندگی کے مستحق یا معبود بن بیٹھیں۔ واضح رہے کہ عبادت کا مفہوم محض ارکان اسلام کی بجا آوری نہیں ہے جیسا کہ عوام میں مشہور ہوچکا ہے۔ بلکہ غلام ہر وقت اپنے مالک کا غلام ہے۔ اگر مالک نے کچھ کاموں پر اس کی ڈیوٹی لگا دی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ مالک اسے کوئی دوسرا کام کرنے کو کہہ نہیں سکتا۔ یا ملازم ڈیوٹی کے طے شدہ کام کے علاوہ دوسرے کام سے انکار کا حق رکھتا ہے۔ لہٰذا بندہ ہر وقت اور ہر حال میں اللہ کا بندہ ہے اور اسے ہر وقت اور ہر حال میں اللہ کی اطاعت اور عبادت میں مصروف رہنا چاہئے۔