سورة الفتح - آیت 17

لَّيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ ۗ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ وَمَن يَتَوَلَّ يُعَذِّبْهُ عَذَابًا أَلِيمًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

یہ اندھے پر تکلیف ہے اور نہ لنگڑے پر تکلیف ہے اور نہ بیمار پر تکلیف ہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریگا تو اللہ اس کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور جو پلٹ جائے گا ۔ اسے دردناک عذاب (ف 1) دے گا

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٢] جہاد فرض عین نہیں :۔ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ منافق تو محض حیلے بہانے کرتے ہیں۔ اصل معذور لوگ جنہیں جہاد سے رخصت ہے وہ ہیں جو جسمانی طور پر تندرست نہ ہوں۔ مثلاً اندھے، لنگڑے، اپاہج، بیمار، نابالغ، بچے اور ضعیف و ناتواں بوڑھے بزرگ مجنون اور فاتر العقل قسم کے لوگ۔ علاوہ ازیں کچھ اور عذر بھی شریعت کی نگاہ میں مقبول ہیں۔ مثلاً غلام یا ایسا تندرست جو تنگدستی کی وجہ سے سامان جنگ بھی مہیا نہ کرسکتا ہو۔ یا مثلاً ایسا شخص جس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بوڑھا ہو اور وہ اپنے بیٹے کی خدمت کا محتاج ہو۔ واضح رہے کہ اگر والدین مسلمان ہوں تو کوئی شخص ان کی اجازت کے بغیر جہاد میں شامل نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر والدین کافر ہوں تو پھر ان سے اجازت کی ضرورت نہیں۔ [٢٣] اگرچہ یہ آیت اور اس کا حکم اللہ اور اس کے رسول کے سب فرمانبرداروں کو شامل ہے۔ تاہم ربط مضمون کے لحاظ سے یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ معذور لوگ بھی اگر ہمت کرکے کسی طرح جہاد میں شرکت کرسکیں تو ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔ اور جو شخص امام وقت کے اعلان شمولیت اور کسی شرعی عذر کے نہ ہونے کے باوجود جہاد میں حصہ نہیں لیتا اسے اللہ تعالیٰ سخت سزا دے گا۔