سورة محمد - آیت 20

وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَةٌ ۖ فَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ ۙ رَأَيْتَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَأَوْلَىٰ لَهُمْ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ یوں کہتے ہیں (کہ جہاد کے متعلق) کوئی سورت کیوں نہ اتری ۔ پھر جب ایک صاف معنی سورت اتری اور اس میں لڑائی کا ذکر آیا تو انہیں جن کے دلوں میں مرض ہے دیکھتا ہے کہ تیری طرف یوں تکتے ہیں جیسے وہ تکتا ہے جس پر مرتے وقت موت (ف 1) کی بےہوشی طاری ہوتی ہے سو خرابی ہے ان کی

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٤] جہاد کے حکم پر منافقوں کی حا لت زار :۔ مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا ہوچکی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہی حکم تھا کہ سب کچھ صبر کے ساتھ برداشت کرتے جاؤ۔ اور اپنی تمام تر توجہ نمازوں کے قیام، زکوٰۃ کی ادائیگی اور اس کے ذکر کی طرف مبذول کئے رہو۔ اس وقت کئی جرأت مند مسلمان یہ آرزو کیا کرتے تھے کہ کاش انہیں کافروں سے لڑنے کی اجازت مل جائے۔ اور ہم بھی ان سے ان کے مظالم کا بدلہ لے سکیں۔ مدینہ میں پہنچنے کے ایک سال بعد مسلمانوں کو جنگ کی اجازت تو مل گئی۔ لیکن ابھی کوئی صریح حکم نازل نہیں ہوا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ جہاد کے متعلق صریح احکام و ہدایات نازل ہوں پھر جب ایسی ہدایات بھی نازل ہوگئیں تو اس وقت بہت سے منافق بھی مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوچکے تھے علاوہ ازیں کچھ ضعیف الاعتقاد اور کمزور مسلمان بھی تھے۔ جب جہاد کے احکام نازل ہوئے تو یک لخت ان پر موت کا خوف طاری ہوگیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یوں دیکھنے لگے جیسے موت انہیں سامنے کھڑی نظر آرہی ہے۔ منافقوں کو تو بس ٹھنڈا ٹھنڈا اسلام قبول تھا۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ نمازیں پڑھ لیتے تھے اور روزے بھی رکھ لیتے تھے مگر جب جان کی بازی لگانے کا وقت آیا تو فوراً ہمت ہار بیٹھے۔ اور ہر شخص کو یہ معلوم ہوگیا کہ کون شخص ایمان کے حق میں کس قدر مخلص ہے؟