وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ
اور جب ہم نے جنوں (ف 2) میں سے کئی شخص تیری طرف متوجہ کردیئے کہ قرآن سنیں ۔ پھر جب وہ اس کے پاس حاضر ہوئے تو آپس میں بولے کہ چپ رہو ۔ پھر جب پڑھنا تمام ہوا تو اپنی قوم کی طرف ڈراتے ہوئے واپس لوٹے
[٤١] انسان سے پہلے زمین پر جنوں کی آبادی :۔ اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق میں سے دو نوع ایسی ہیں جو شریعت الٰہی کی مکلف ہیں۔ ایک جن، دوسرے انسان۔ پھر انسانوں کی پیدائش سے پہلے جن ہی اس زمین پر آباد تھے۔ اور ان کی طرف بھی پیغمبر مبعوث ہوتے تھے۔ اور جس طرح انسانوں کی اکثریت اللہ تعالیٰ کی نافرمان ہی رہی ہے۔ اسی طرح جنوں کی اکثریت بھی نافرمان ہی تھی اور اب بھی ہے۔ بعد میں نبوت صرف انسانوں میں :۔ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تو اسے بھی اشرف المخلوقات بنایا اور جنوں کی حیثیت انسان کے بالتبع بن جانے کی ہوگئی۔ نبوت کا سلسلہ جنوں کی طرف سے بند ہو کر انسانوں کی طرف منتقل ہوگیا۔ اب جو پیغمبر انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ بھیجتے رہے وہی جنوں کے لیے بھی پیغمبر ہوتے تھے گویا ہمارے نبی آخرالزمان جس طرح ہمارے لیے اللہ کے پیغمبر تھے، جنوں کے لئے بھی تھے۔ جنوں کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سننے کا ذکر ایک تو اس مقام پر آیا ہے اور دوسرا سورۃ جن میں۔ لیکن روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مکی دور میں تقریباً چھ دفعہ ایسا موقع آیا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنوں نے قرآن سنا تھا۔ ان میں سے ہم چند روایات درج کرتے ہیں۔ ان میں جو کچھ اختلاف معلوم ہوتا ہے۔ وہ صرف الگ الگ موقع کی وجہ سے ہے۔: ١۔ جنوں کا آپ کی زبان سے قرآن سننا :۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، ایک دفعہ آپ اپنے چند صحابہ کے ہمراہ عکاظ کے بازار جانے کے ارادہ سے روانہ ہوئے۔ ان دنوں شیطانوں کو آسمانوں کی خبر ملنا بند ہوگئی اور ان پرانگارے پھینکے جاتے تھے۔ وہ (زمین کی طرف) لوٹے اور (آپس میں) کہنے لگے۔ یہ کیا ہوگیا۔ ہمیں آسمان کی خبر ملنابند ہوگئی اور ہم پر انگارے پھینکے جاتے ہیں۔ ضرور کوئی بات واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہمیں آسمان کی خبر ملنا بند ہوگئی ہے اب یوں کرو کہ ساری زمین کے مشرق و مغرب میں پھر کر دیکھو کہ وہ کیا نئی بات واقع ہوئی ہے ان میں سے کچھ شیطان تہامہ (حجاز) کی طرف بھی آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نخلہ میں تھے اور عکاظ کے بازار جانے کا قصد رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو نماز فجر پڑھا رہے تھے جب ان جنوں نے قرآن سنا تو ادھر کان لگا دیا۔ پھر کہنے لگے : یہ وہی چیز ہے جس کی وجہ سے ہم پر آسمان کی خبر بند کردی گئی۔ پھر اسی وقت وہ اپنی قوم کی طرف لوٹے اور کہنے لگے ﴿ اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا۔۔۔احدا ﴾ تک اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ جن نازل فرمائی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جنوں کی گفتگو آپ کو وحی کے ذریعہ معلوم ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورۃ الجن) ٢۔ جنوں کی خوراک :۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ آپ یک دم ہم سے غائب ہوگئے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہاڑ کی وادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کیا، مگر آپ نہیں ملے۔ ہم سمجھے کہ آپ کو جن اڑا لے گئے یا کسی نے چپکے سے مار ڈالا اور رات ہم نے بڑی پریشانی میں بسر کی جب صبح ہوئی تو دیکھا کہ آپ حرا کی طرف سے آرہے ہیں۔ ہم نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو آپ ہم سے غائب ہوگئے ہم نے آپ کو تلاش کیا مگر آپ نہ ملے تو رات ہم نے بڑی پریشانی میں گزاری۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے جنوں کی طرف سے ایک بلانے والا آیا، میں اس کے ساتھ گیا اور جنوں کو قرآن سنایا۔ پھر وہ ہم کو اپنے ساتھ لے گئے اور ان کی نشانیاں اور ان کی آگ کے نشان ہمیں بتائے۔ پھر جنوں نے آپ سے توشہ کا مطالبہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس جانور کی ہر ہڈی جو اللہ کے نام پر کاٹا جائے، تمہاری خوراک ہے۔ تمہارے ہاتھ میں پڑتے ہی وہ گوشت سے پر ہوجائے گی اور ہر اونٹ کی مینگنی تمہارے جانوروں کی خوراک ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہڈی اور مینگنی سے استنجا مت کرو۔ کیونکہ وہ تمہارے بھائی جنوں اور ان کے جانوروں کی خوراک ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’میں لیلۃ الجن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہ تھا لیکن مجھے آرزو رہی کاش میں آپ کے ساتھ ہوتا‘‘ نیز ایک دوسری روایت میں ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنوں کے آنے کی خبر ایک درخت نے دی تھی۔ (مسلم۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب الجھر بالقرآۃ فی الصبح والقراءۃ علی الجن) [٤٢] جو روایات حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مختلف کتب احادیث میں مذکور ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جنوں کی پہلی حاضری کا یہ واقعہ جس کا اس آیت میں ذکر ہے وادی نخلہ میں پیش آیا تھا۔ اور ایک دوسری روایت کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپ اہل طائف سے مایوس ہو کر مکہ معظمہ کی طرف واپس آرہے تھے۔ راستہ میں آپ نے وادی نخلہ میں قیام فرمایا وہاں عشاء یا فجر یا تہجد کی نماز میں آپ قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے کہ جنوں کے ایک گروہ کا ادھر سے گزر ہوا اور وہ آپ کی قراءت سننے کے لیے وہاں ٹھہر گیا۔ اس موقعہ پر جن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہیں آئے تھے۔ نہ آپ نے ان کی آمد کو محسوس کیا تھا بلکہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی ان کے آنے اور قرآن سننے کی خبر دی جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت یا مذکورہ حدیث نمبر ١ سے معلوم ہوتا ہے۔ [٤٣] سننے والے جنوں کی تبلیغ سے بہت سے جنوں کا ایمان لے آنا :۔ جنوں کے اس گروہ نے قرآن سنا تو اس سے بہت متاثر ہوئے اور فوراً رسول اللہ کی رسالت پر اور قرآن کے منزل من اللہ ہونے پر ایمان لے آئے۔ (یہ واقعہ ان کفار مکہ کو سنایا جارہا ہے جو دل سے قرآن کی عظمت کو تسلیم کرنے کے باوجود اسے بہرحال نہ ماننے پر ادھار کھائے بیٹھے تھے) یہ جن صرف خود ہی ایمان نہیں لائے بلکہ اپنی قوم میں جاکر انہیں قرآن کا پیغام سنایا۔ جنوں نے قرآن کی کون سی آیات سنی تھیں؟ اس کی صراحت کہیں مذکور نہیں البتہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کچھ ایسی ہی آیات تھیں جن میں اللہ کے نافرمانوں اور مشرکوں کو ان کے برے انجام سے ڈرایا گیا ہو۔ چنانچہ جنوں کی اپنی قوم کو تبلیغ کے نتیجہ میں ایک کثیر تعداد میں جن مسلمان ہوگئے۔ جو بعد میں کئی بار وفود کی شکل میں آپ کے پاس حاضر ہوتے رہے۔