سورة الأحقاف - آیت 8

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَلَا تَمْلِكُونَ لِي مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَا تُفِيضُونَ فِيهِ ۖ كَفَىٰ بِهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۖ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کیا یہ کہتے ہیں ۔ کہ یہ (قرآن) اس نے اپنی طرف سے بنالیا ہے ؟ تو کہہ اگر میں نے وہ بنالیا ہے تو تم میرا اللہ کے سامنے کچھ بھلا نہیں کرسکتے ۔ جن باتوں میں قرآن کے بارہ میں لگے ہو اللہ خوب جانتا ہے ۔ وہ میرے اور تمہارے درمیان کافی گواہ ہے اور وہی گناہ بخشنے والاہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩] خود ساختہ کلام یا جادو؟ یعنی اپنے سابقہ بیان کی خود ہی تردید کردیتے تھے۔ کیونکہ یہ دونوں باتیں متضاد ہیں۔ اگر یہ قرآن جادو ہے تو آپ کا کلام نہیں اور آپ کا اپنا بنایا ہوا کلام ہے تو پھر وہ جادو نہیں ہوسکتا۔ [١٠] یعنی اگر میں نے خود ہی کلام تالیف کرکے اللہ کی طرف منسوب کردیا ہے اور اللہ پر جھوٹ باندھا ہے۔ تو یقیناً اللہ مجھے اس افتراء کی سزا دے گا۔ تم مجھے اس سے چھڑا تو نہیں لو گے۔ نہ ہی تم میں یہ قدرت ہے۔ البتہ جن کاموں میں تم لگے ہوئے ہو وہ ضرور اس قابل ہیں کہ اللہ تمہیں ان کاموں کی سزا دے اور وہ تمہارے سب کاموں کو دیکھ بھی رہا ہے۔ لہٰذا تم اپنے کاموں اور ان کے انجام کی فکر کرو۔ [١١] یہاں اس جملہ کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ ہم سب کے اعمال دیکھ رہا ہے لیکن سزا نہیں دیتا، ورنہ اگر وہ بے رحم بادشاہوں کی طرح ہوتا تو کب سے لوگوں کا قصہ پاک ہوچکا ہوتا۔ یہ اس کی مہربانی ہے کہ ایسی سب باتوں کو برداشت کرکے درگزر کئے جاتا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر اب بھی تم اپنی ہٹ دھرمی سے باز آجاؤ تو اللہ تعالیٰ از راہ کرم تمہارے گناہ معاف فرما دے گا۔