سورة الأحقاف - آیت 4

قُلْ أَرَأَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ ۖ ائْتُونِي بِكِتَابٍ مِّن قَبْلِ هَٰذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِّنْ عِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کہہ بھلا دیکھ تو اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو ۔ مجھے دکھلاؤ کہ انہوں نے زمین میں کیا پیدا کیا یا آسمانوں میں ان کو کچھ سابھا ہے ؟ اگر تم سچے ہو تو میرے پاس اس قرآن سے پہلے کی کوئی کتاب یا کوئی عملی روایات لاؤ

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤] مشرکین سے شرک پر عقلی دلیل کا مطالبہ : سابقہ آیات میں مشرکین مکہ کے انکار آخرت کا رد پیش کیا گیا ہے۔ اس آیت اور اس سے مابعد کی آیات میں ان کے شرک پر تنقید کی جارہی ہے۔ ان سے پوچھا یہ جارہا ہے کہ اللہ کے سوا جن کی تم پوجا کرتے ہو اس کی کوئی وجہ تو بتاؤ۔ عبادت کے لائق تو وہی ہستی ہوسکتی ہے جس کا کائنات کی پیدائش میں کچھ عمل دخل ہو۔ بتاؤ اس کائنات کی کون سی چیز انہوں نے پیدا کی ہے۔ یا زمین یا آسمانوں کا کون سا حصہ انہوں نے بنایا تھا ؟ اور اگر انہوں نے کوئی چیز پیدا ہی نہیں کی تو پھر وہ اس کی ملکیت کیسے بن گئی جس میں تصرف کے اختیارات انہیں حاصل ہوں۔ [٥] کتاب اللہ یا آثار سے نقلی دلیل کا مطالبہ :۔ ایک طرف تو تم یہ تسلیم کرتے ہو کہ کائنات کی تخلیق میں تمہارے معبودوں کا کوئی حصہ نہیں، کوئی شراکت نہیں۔ دوسری طرف یہ بھی رٹ لگائے جاتے ہو کہ ان کو کائنات میں تصرف کے اختیار حاصل ہیں۔ یہ ہماری بگڑی بنا بھی سکتے ہیں اور اگر ان کی گستاخی کی جائے تو یہ انتقام بھی لے سکتے ہیں۔ تو یہ بات عقلی لحاظ سے غلط ہے۔ پھر اگر عقلی دلیل پیش نہیں کرسکتے تو کوئی نقلی دلیل ہی پیش کردو۔ کہیں بھی اللہ کی کتاب میں کوئی ایسی بات لکھی ہوئی دکھا دو کہ اللہ کے سوا کائنات میں دوسروں کو بھی کچھ اختیارات حاصل ہیں۔ یا اللہ کے فلاں قسم کے اختیارات مثلاً رزق دینے کے فلاں بت یا دیوتا یا بزرگ کو تفویض کر رکھے ہیں اور فلاں قسم کے مثلاً زندگی بخشنے کے اختیارات فلاں کو سپرد کردیئے ہیں اور اگر کتاب الٰہی میں ایسی تحریر موجود نہ ہو تو کسی علمی اثر میں ہی دکھادو۔ آثار سے کیا مراد ہے؟ علمی اثر سے مراد کتاب اللہ کی وہ تفاسیر و شروح ہیں جو مستند ہوں۔ (جیسے ہمارے پاس کتاب اللہ تو قرآن کریم ہے اور عملی اثر احادیث ہیں۔ جن میں سلسلہ اسناد بھی درج ہوتا ہے جس سے یہ تحقیق کی جاسکتی ہے کہ فلاں حدیث کس درجہ کی ہے اور آیا وہ مقبول ہے یا مردود) اور اگر تمہارے پاس نہ کوئی عقلی دلیل موجود ہو اور نہ نقلی تو پھر سمجھ لو کہ تمہارے عقائد محض ظن اور اوہام پر مبنی ہیں۔