سورة الجاثية - آیت 12

اللَّهُ الَّذِي سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِيَ الْفُلْكُ فِيهِ بِأَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اللہ وہ ہے جس نے دریا کو تمہارے قابو میں کیا ، تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تاکہ تم اس کا فضل روزگار تلاش کرو اور شاید کہ تم شکر کرو

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٥] سمندر کو مسخر کرنا :۔ پانی کے لیے اللہ نے یہ قانون بنایا ہے کہ وہ ہر چیز کو اوپر اپنی سطح کی طرف اچھالتا ہے۔ لہٰذا جو چیزیں اپنے مساوی الحجم پانی سے ہلکی ہوتی ہیں وہ پانی کی سطح پر آکر تیرنے لگتی ہیں۔ جیسے لکڑی، کاغذ، تنکے، گتا وغیرہ اور جو بھاری ہوتی ہیں، وہ پانی میں ڈوب جاتی ہیں۔ جیسے پتھر اور دھاتیں، تاہم پانی میں اچھالنے کی قوت کی وجہ سے ان کا وزن کم ہوجاتا ہے اور اتنا ہی کم ہوتا ہے جتنا اس کے مساوی الحجم پانی کا وزن ہوتا ہے پھر اگر کسی چیز کی شکل ہی کشتی یا پیالہ یا گلاس کی بنا دی جائے تو بھاری چیزیں مثلاً لو ہا وغیرہ کی طرح کی چیزیں پانی میں تیرنے اور بہت سا بوجھ اٹھا کر پانی میں تیرنے کے قابل بن جاتی ہیں۔ بس یہی وہ قانون ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انسان دریاؤں اور سمندروں میں کشتیوں اور لوہے کے دیو ہیکل جہازوں کے ذریعے سفر کرنے کے قابل ہوگیا ہے اور اسی بات کو اللہ نے ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے کہ ہم نے سمندر کو انسان کے تابع بنا دیا۔ [١٦] سمندروں سے انسان کئی طرح کے فوائد حاصل کرتا ہے۔ ان سے موتی اور جواہرات نکالتا ہے۔ آبی جانوروں کا شکار کرکے گوشت حاصل کرتا ہے۔ تجارتی سفر کرکے روزی کماتا ہے اور خشکی کے ایک حصہ سے منتقل ہو کر زمین کے کسی دوسرے حصہ میں میں جا آباد ہوتا ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوا کہ اللہ نے سمندروں جیسی خوفناک چیز کو بھی انسان کے بس میں کردیا ہے۔