وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن رِّزْقٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ آيَاتٌ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
اور رات دن کے بدلنے میں اور جو اللہ نے آسمان سے رزق اتارا ۔ پھر اس سے زمین کو اس کے مرگئے پیچھے جلایا اس میں اور ہواؤں کے پھرنے میں عقل مند لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں
[٥] پانچویں نشانی گردش لیل ونہار :۔ رات آتی ہے تو بتدریج آتی ہے یکدم گھٹا ٹوپ اندھیرا نہیں چھا جاتا، نہ ہی سورج یک دم پوری آب و تاب کے ساتھ نکل آتا ہے۔ بلکہ وہ بھی بتدریج آتا ہے۔ راتیں لمبی ہونا شروع ہوتی ہیں تو ان میں تدریج کا قانون کام کرتا ہے۔ پھر موسم بدلتے ہیں تو بھی ان میں تدریج پائی جاتی ہے۔ پھر اس تدریج کے لیے بھی ایک قانون ہے ایک ضابطہ ہے جس میں نہ کمی بیشی ہوتی ہے اور نہ بے ضابطگی۔ نیز تبدیلیاں بھی اس انداز سے ہوتی ہیں جس سے بنی نوع کی کئی مصلحتیں متعلق ہوتی ہیں۔ جن عظیم الجثہ اور مہیب کروں کو کنٹرول میں رکھ کر اللہ نے یہ دن رات اور موسموں میں نظام بنایا ہے اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کائنات کا پورا تصرف صرف ایک ہی ہستی کے اختیار میں ہے۔ [٦] چھٹی نشانی' بارش کا نزول اور مخلوق کے لئے پیدائش رزق :۔ یہاں رزق سے مراد بارش ہے جو تمام جاندار مخلوق کے رزق کا ذریعہ بنتی ہے۔ بارش کے برسنے، پھر اس بارش کے پانی سے زمین کی پیداوار اگنے میں بہت سے عوامل کام کرتے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کے آگے بالکل بے بس ہیں۔ یہ سارے عوامل اپنی اپنی مقررہ ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں۔ تب جاکر انسانوں اور جانداروں کو رزق حاصل ہوتا ہے۔ عوامل سب ایک جیسے نباتات ہزاروں اقسام کی :۔ اس میں ایک نشانی تو یہ ہے کہ ان عوامل پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا کچھ بھی اختیار نہیں تو پھر ان کی خدائی کہاں سے آگئی اور دوسری نشانی یہ ہے کہ زمین ایک، پانی ایک، آب و ہوا ایک اور موسم ایک لیکن نباتات مختلف انواع کی اور مختلف رنگوں کی اگ آتی ہے اور تیسری نشانی یہ ہے کہ آسمان سے رزق کا انتظام تو سب کے لیے مشترکہ ہوتا ہے اور ہر کوئی انتفاع کا برابر کا حق رکھتا ہے۔ مگر رزق ہر ایک کا جدا جدا ہے۔ کسی کو کم ملتا ہے کسی کو زیادہ۔ اور جتنا رزق کسی کے مقدر ہوچکا وہ کتنی ہی کوشش کر دیکھے اس کا رزق بڑھ نہیں سکتا۔ نہ ہی کوئی شخص دوسرے کے رزق میں کمی کرسکتا ہے جو اسے ملنا ہوتا ہے مل کے رہتا ہے۔ [٧] ہواؤں کی گردش اور اقسام :۔ ہوائیں بارش سے بھرے ہوئے بوجھل بادلوں کو بلاتکلف اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتی ہیں۔ کچھ لوگوں پر رحمت کا پیغام لاتی ہیں اور کچھ لوگوں پر عذاب الٰہی بن کر چلتی ہیں۔ پھر یہ موسم میں تبدیلی لانے میں بھی موثر کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ ہوائیں بھی اس فضا میں آزادانہ گردش نہیں کر رہیں۔ بلکہ جس طرف اللہ کا حکم ہوتا ہے ادھر ہی چلتی ہیں۔ اگرچہ ہواؤں کی گردش کے لیے بھی اللہ نے قوانین مقرر کردیئے ہیں۔ تاہم اللہ تعالیٰ اپنے ہی بنائے ہوئے طبعی قوانین کے سامنے مجبور و بے بس نہیں ہے۔ بلکہ جب وہ چاہے اور جس طرح چاہے اپنی مخلوق کی ہر چیز سے اپنی مرضی کے مطابق کام لے سکتا ہے۔