سورة الدخان - آیت 57

فَضْلًا مِّن رَّبِّكَ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

یہ تیرے رب کا فضل ہے ۔ یہی بڑی مراد ملنی ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٨] جنت میں داخلہ صرف اللہ کے فضل سے ہوگا اور اس کی وجہ :۔ یعنی اصل کامیابی یہی ہے کہ انسان دوزخ کے عذاب سے بچ جائے اور اگر اللہ تعالیٰ دوزخ کے عذاب سے بچا کر جنت میں بھی داخل کردے تو یہ اللہ کا خاص فضل ہوتا ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :’’کسی شخص کو اس کے عمل بہشت میں نہیں لے جائیں گے‘‘ لوگوں نے عرض کیا :’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال بھی؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہاں! میں بھی اپنے اعمال کے سبب بہشت میں نہیں جاؤں گا۔ اِلایہ کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت مجھے ڈھانپ لے‘‘ (بخاری۔ کتاب المرضیٰ۔ باب تمنی المریض الموت)علماء کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی خواہ کتنی ہی عبادت اور فرمانبرداری کرے اس سے تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ احسانات کا بھی بدلہ نہیں چکایا جاسکتا۔ چہ جائیکہ اسے بہشت بھی عطا کی جائے۔ اور اگر کسی کو جنت میں داخلہ ملتا ہے تو یہ محض اس کا فضل ہوا۔ نیز حدیث میں ہے کہ مومن کو قبر میں اس کا جنت میں ٹھکانا دکھایا جاتا ہے اور دوزخ میں بھی اور کہا جاتا ہے کہ اگر تم اللہ کی فرمانبرداری نہ کرتے تو تمہارا یہ ٹھکانا تھا اور دوزخ میں ٹھکانہ اس لیے دکھایا جاتا ہے کہ جب تک انسان اللہ کی کسی نعمت کے مقابلہ میں اس کے برعکس کوئی تکلیف دیکھ نہ لے وہ اللہ کی نعمت کا صحیح اندازہ کر ہی نہیں سکتا۔ انسان کو اپنی صحت کی قدر بھی اسی وقت معلوم ہوتی ہے جب وہ بیمار پڑتا ہے۔