سورة آل عمران - آیت 155

إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا ۖ وَلَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

دو فوجوں کے بھڑنے کے دن جو لوگ تم میں سے پیچھے ہٹ گئے تھے ، ان کے بعض گناہوں کی شامت (ف ١) سے انہیں شیطان نے ڈگا دیا تھا اور خدا نے ان کا قصور (ف ٢) معاف کردیا ، بےشک اللہ بخشنے والا بردبار ہے ۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٤٨]احد میں آپ کے گرد جمع ہونے والےصحابہ :۔ یعنی غزوہ احد جو مسلمانوں اور کفار مکہ کے درمیان بپا ہوئی۔ اس شکست کے بعد بعض مخلص مسلمانوں نے بھی فرار کی راہ اختیار کرلی تھی۔ بالخصوص اس وقت جب آپ کی وفات کی افواہ پھیلی تھی اور مسلمانوں کے اوسان خطا ہوگئے تھے۔ اس آیت میں ﴿بِبَعْضِ مَا کَسَبُوْا ﴾ سے مراد بھی وہی درہ کو چھوڑنے اور اللہ کے رسول کی نافرمانی کرنے کی غلطی تھی جو مسلمانوں سے سرزد ہوگئی تھی اور یہ راہ فرار اختیار کرنا ان مومنوں کے اپنے عزم سے نہ تھا بلکہ یہ ایک شیطانی اغوا تھا ورنہ ان کے دل ایمان پر قائم تھے اس دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس صرف تیرہ یا چودہ مسلمان رہ گئے تھے جن میں سات مہاجرین تھے اور سات انصار۔ مہاجرین میں سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی ان لوگوں میں شامل تھے۔ جنہوں نے راہ فرار اختیار کی تھی۔ چنانچہ شیعہ حضرات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ایک یہ طعن بھی کرتے ہیں۔ حالانکہ خود اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ یہ فرار محض شیطانی اغوا تھا۔ ایمان کی کمزوری کی بنا پر نہ تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا قصور معاف فرما دیا ہے۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ اور طلحہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت:۔ جب آپ زخمی ہوئے اور کفار نے آپ کے گرد گھیرا ڈال لیا تو اس دوران دو صحابہ حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہما نے آپ کی جان کی حفاظت کے لیے جانثاری کے بے مثال نمونے پیش کئے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سعد بن ابی وقاص کے بعد پھر کسی کے لیے نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر اپنے آپ کو یا اپنے ماں باپ کو فدا کیا ہو۔ غزوہ احد کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے یوں فرماتے تھے۔ ’’تیر مارو، میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد باب المجن ومن يتترس بترس صاحبہ) حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ آپ کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ آپ بھی ماہر تیر انداز تھے جو کوئی پاس سے گزرتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے اپنے تیر طلحہ رضی اللہ عنہ کے حوالے کردو۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ کافروں کے تیر روکنے کے لیے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی چیز نہ تھی تو اپنا بازو آگے کردیا اور سب تیر اسی پر برداشت کرتے رہے۔ حتیٰ کہ ایک بازو شل ہوگیا تو دوسرا آگے کردیا۔ چنانچہ قیس بن ابی حازم کہتے ہیں کہ میں نے طلحہ رضی اللہ عنہ کا وہ ہاتھ دیکھا جس سے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بچایا تھا، وہ بالکل شل ہوگیا تھا۔ (بخاری، کتاب المناقب، باب ذکر طلحة بن عبیداللہ )