سورة الزخرف - آیت 18

أَوَمَن يُنَشَّأُ فِي الْحِلْيَةِ وَهُوَ فِي الْخِصَامِ غَيْرُ مُبِينٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کیا جو شخص (ف 1) کہ زبور میں پالا جائے اور وہ جھگڑے میں بات نہ کہہ سکے (یعنی لڑکی) ؟

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٦] یعنی جس کا فطری لگاؤ ہی چوڑیوں، زیورات، آرائش و زیبائش اور نمائش سے ہوتا ہے۔ جسمانی قوت کے لحاظ سے کمزور ہوتی ہے۔ ایسی کمزور جنس کو اللہ کی اولاد تجویز کرتے ہیں۔ اور لڑکے جو صاحب عزم و ہمت اور مرد میدان ہوتے ہیں۔ اپنے لیے وہ پسند کرتے ہیں۔ [١٧] خصم ایسے فریقین مقدمہ کو کہتے ہیں جن کے درمیان اپنے اپنے حقوق کا جھگڑا ہو اور خصام ایسے ہی مقدمہ یا جھگڑا کو کہتے ہیں۔ یعنی عورتیں شوروغل سے ہنگامہ تو خوب پیدا کرسکتی ہیں۔ آپس میں لڑ بھی خوب سکتی ہیں۔ لیکن بحث و جدال کے وقت انہیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ کون سی بات اس کے موقف کی حمایت میں جاتی ہے اور کون سی مخالفت میں۔ نیز وہ غیر متعلقہ باتوں سے تو طوفان اٹھا سکتی ہیں مگر کام کی بات To The Point کم ہی کہتی ہیں۔ نہ وہ یہ بات پوری طرح سمجھ سکتی ہیں۔