أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا ۖ فَإِن يَشَإِ اللَّهُ يَخْتِمْ عَلَىٰ قَلْبِكَ ۗ وَيَمْحُ اللَّهُ الْبَاطِلَ وَيُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے سو اگر اللہ چاہے تو تیرے دل (ف 2) پر مہر لگادے اور اللہ اپنی باتوں سے جھوٹ کو مٹانا اور حق کو ثابت کرتا ہے ۔ بےشک وہ دلوں کی بات جانتا ہے
[٣٦] ایک عام آدمی پر بھی ایسا الزام لگانا شدید جرم ہے مگر یہ لوگ اس قدر بے باک ہوگئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی الزام لگانے سے نہیں چوکتے اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن اس نے خود ہی تصنیف کر ڈالا ہے۔ یہ بدبخت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنے ہی جیسا سمجھتے ہیں اور اللہ ایسے ہی بدبختوں کے دلوں پر مہر لگا دیا کرتا ہے۔ اور اگر ان کا الزام درست ہوتا تو اللہ آپ کے دل پر بھی مہر لگا دیتا۔ آپ کے دل پر مہر نہ لگنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ یہی بدبخت جھوٹے اور الزام تراش ہیں۔ [٣٧] یعنی اللہ تعالیٰ باطل کو کبھی پائیداری نصیب نہیں کرتا اور وہ سرنگوں ہوکے رہتا ہے۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حق از خود ثابت اور برقرار ہوجاتا ہے۔ لہٰذا آپ ان کے اس الزام کی مطلق پروا نہ کریں عنقریب ان کا یہ الزام اور جھوٹ واضح ہوجائے گا اور حق نتھر کر سامنے آجائے گا۔ اللہ کا ہمیشہ سے یہی دستور رہا ہے۔ [٣٨] یعنی آپ کو جھٹلانے اور آپ پر اس طرح کے گھناؤنے الزام لگانے کی تہہ میں جو ان کے ذاتی مفادات مضمر ہیں اور جن کی وجہ سے یہ ایسے کام کرتے ہیں اللہ انہیں خوب جانتا ہے۔