أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۗ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
کیا ان (اہل مکہ) کے اور شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین میں وہ راہ ڈالی ہے جس کا اذن اللہ نے نہیں دیا اور اگر فیصلہ کی بات (قیامت پر) نہ ہوتی تو ان میں (ابھی) فیصلہ ہوجاتا اور بےشک جو ظالم ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے
[٣٢] اللہ کے مقابلہ میں کن کن لوگوں کا حکم چلتا ہے؟:۔ ظاہر ہے کہ یہاں شریک سے مراد پتھر کے بت نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ وہ نہ سن سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں وہ کسی کو کوئی قانون یا ضابطہ کیا دیں گے؟ لامحالہ اس سے مراد، انسان یا انسانوں کی جماعت ہی ہوسکتی ہے۔ جنہوں نے اللہ کی شریعت کے مقابلہ میں اپنی شریعت چلا رکھی ہو۔ حرام و حلال کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہوں یا لوگوں کے لیے وہ ضابطہ حیات، فلسفے یا نظام پیش کرتے ہوں جو اللہ کی شریعت کے خلاف ہوں اور پھر انہیں لوگوں میں رائج اور نافذ بھی کرتے ہوں۔ اور ایسے لوگ پارلیمنٹ یا ایوانوں کے ممبر بھی ہوسکتے ہیں۔ خود سر حکمران بھی، آستانوں اور مزاروں کے متولی اور مجاور بھی اور گمراہ قسم کے فلاسفر اور مصنف بھی۔ انہیں ہی طاغوت کہا جاتا ہے۔ [٣٣] یعنی اللہ ایسے باغیوں کے بارے میں عفو و درگزر سے کام لیے جاتا ہے اور انہیں فوراً تباہ نہیں کردیتا۔ جس کی وجہ واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو دیئے ہوئے اختیار کو اضطرار میں تبدیل نہیں کرنا چاہتا۔ وہ ہر انسان کو اختیار دے کر ہی اس دنیا میں آزمانا چاہتا ہے۔ البتہ جب یہ اختیار کا عرصہ ختم ہوجائے گا اور وہ اس دنیا سے رخصت ہوجائیں گے تو پھر ایسے ظالموں کو ان کی ساری کرتوتوں کی دردناک سزا دی جائے گی۔