وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِّتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا وَتُنذِرَ يَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ
اور اسی طرح تجھ پر عربی زبان میں قرآن نازل کیا ۔ تاکہ تو بڑی بستی (مکہ) اور اس کے آس پاس ہونے والوں کو ڈرائے اور جمع ہونے کے دن سے ڈرائے جس میں شک نہیں ۔ ایک فریق بہشت میں ہوگا اور ایک فریق دوزخ میں
[٥] قرآن ساری دنیا کی ہدایت کے لئے :۔ اُمُّ الْقُرَیٰ سے مراد مرکزی بستی یا بڑا شہر اور اس سے مراد مکہ معظمہ ہے۔ جہاں اللہ کا گھر موجود ہے۔ اور تمام دنیا کے لوگوں کے جمع ہونے کے لیے مرکز بنا دیا گیا ہے۔ اور اس کے گرد سے مراد صرف آس پاس کے علاقے یا ملک نہیں بلکہ پوری روئے زمین ہی مراد ہے۔ کیونکہ یہ پوری روئے زمین کا مرکز بنایا گیا ہے۔ گویا اس آیت میں چند بنیادی باتوں کا نہایت اختصار کے ساتھ ذکر کردیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ قرآن اہل عرب کی اپنی ہی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ تاکہ اس کے سمجھنے سمجھانے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے اور لوگ مخصوص قسم کے علماء کے محتاج ہو کر نہ رہ جائیں بلکہ تمام اہل عرب اس سے براہ راست استفادہ کرسکیں، دوسری یہ کہ آپ کی دعوت صرف اہل مکہ کے لیے نہیں بلکہ تمام دنیا کے لیے ہے اور تیسری یہ کہ آپ کی بعثت کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آپ دنیا بھر کے لوگوں کو قیامت کے دن واقع ہونے والے واقعات اور ان کے اعمال کی جزا وسزا سے پوری طرح خبردار کردیں۔ [٦] یعنی جتنے بھی انسان اور جنّ پیدا ہوئے ہیں ان سب کو اس دن اکٹھا کرلیا جائے گا۔ دنیا میں تو کئی مذاہب ہیں پھر ہر مذہب کے بیسیوں فرقے ہیں۔ مگر اس دن ساری مخلوق صرف دو گروہوں میں تقسیم ہوگی۔ ایک اہل جنت، دوسرے اہل دوزخ۔ ایک تیسرے فریق اعراف والوں کا ذکر بھی سورۃ اعراف میں آیا ہے لیکن وہ فریق کوئی مستقل فریق نہ ہوگا بلکہ جلد یا بدیر اہل جنت سے مل جائے گا۔