وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ
اور ہم نے آدم (علیہ السلام) سے کہا کہ تو اور تیری جورو بہشت (ف ٢) میں رہ اور تم دونوں اس میں جہاں چاہو بافراغت (محفوظ) کھاؤ ، لیکن تم دونوں اس درخت کے پاس نہ جانا (ف ١) ورنہ تم دونوں ظالم (گنہگاریا بےانصاف) ہوجاؤ گے ۔
[٤٨] آدم علیہ السلام اور نظریہ ارتقاء :۔ واضح رہے کہ آدم علیہ السلام سلسلہ ارتقاء کی کڑی نہیں جیسا کہ آج کل ڈارون کا نظریہ ارتقاء کالجوں وغیرہ میں پڑھایا جاتا ہے کہ انسان بندر کی اولاد یا اس کا چچیرا بھائی ہے۔ جب کہ آدم علیہ السلام کا پتلا اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا (٣٨ : ٧٥) پھر اس میں اپنی روح میں سے پھونکا (١٥ : ١٩، ٣٨ : ٧٢) اسی نفخ روح سے انسان میں فہم، قوت ارادہ و اختیار و تمیز و استنباط پیدا ہوئی، جو دوسری کسی مخلوق میں نہیں پائی جاتی۔ [٤٩] حوا کی پیدائش پر ایک اعتراض اور اس کا جواب :۔ سیدہ حوا جنہیں سیدنا آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا کیا گیا۔ بعض’’مساوات مرد و زن‘‘ کو شریعت سے ثابت کر دکھانے والے حضرات یہ کہتے ہیں کہ سیدہ حوا کو بھی اسی مٹی یا مادہ سے پیدا کیا گیا جس سے سیدنا آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ ﴿خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا﴾میں ھَا کی ضمیر مؤنث ہے۔ اگر حوا آدم علیہ السلام سے پیدا ہوتی تو ضمیر مذکر ہونی چاہئے تھی۔ یہ دلیل دو لحاظ سے غلط ہے۔ ایک اس لیے ''ھا'' کی ضمیر (نَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ) کی طرف ہے جو مونث ہے اور دوسرے اس لحاظ سے کہ احادیث صریحہ میں موجود ہے کہ سیدہ حوا کو پسلی سے پیدا کیا گیا۔ لہٰذا اسے سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو ورنہ توڑ دو گے۔ پس اس سے حسن سلوک سے پیش آؤ۔ (بخاری۔ کتاب الانبیاء باب خلق آدم و ذریتہ و قول اللّٰہ تعالیٰوَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰیِٕکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ) [٥٠] جنت ارضی یا سماوی ؟ یہ بحث بھی جاری ہے کہ یہ جنت ارضی تھی یا سماوی، بعض لوگ اسے ارضی سمجھتے اور اس کا مقام عدن یا فلسطین قرار دیتے ہیں۔ مگر ہمارے خیال میں یہ الجنہ وہی ہے جو مسلمانوں میں معروف ہے اور وہ اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق پیدا کی جا چکی ہے۔ اس جنت میں آدم علیہ السلام و حوا کو آباد ہونے کا حکم دیا گیا تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ ان کا اصل ٹھکانہ یہی ہے۔ تاہم یہاں آباد کرنے سے اس بات کا امتحان بھی مقصود تھا کہ آدم علیہ السلام (اور اسی طرح اس کی اولاد) شیطانی ترغیبات کے مقابلہ میں اللہ کی کس قدر اطاعت کرتے ہیں؟ [٥١] اس آزمائش کے لیے جنت سے ایک درخت کا انتخاب کیا گیا کہ اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا۔ اس کے علاوہ تم جنت کے تمام درختوں کے پھل کھا سکتے ہو۔ یہ شجرہ ممنوعہ گندم کا تھا، یا انگور کا یا کسی اور چیز کا ؟ یہ بحث لاحاصل ہے اور پیش نظر مقصد کے لحاظ سے یہ بتانے کی ضرورت بھی نہ تھی۔ [٥٢] ظلم کا لغوی مفہوم :۔ ظلم کا لغوی معنیٰ کسی چیز کو ناجائز طریقہ سے اس کے اصل مقام سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھنا ہے اور یہ لفظ بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی ہر ناانصافی کی بات خواہ وہ حقوق اللہ سے تعلق رکھتی ہو یا حقوق العباد سے، ظلم ہے، بالفاظ دیگر ہر گناہ پر ظلم کے لفظ کا اور گنہگار پر ظالم کے لفظ کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ اس آیت میں ظلم سے مراد اللہ رب العزت کی نافرمانی بھی ہے اور اپنے نفس پر زیادتی بھی جس کی وجہ سے جنت سے نکلنا پڑا۔