وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ
اور نیکی اور بدی برابر نہیں ۔ بدی کو اس خصات سے جو بہت اچھی ہو دفع کر (یعنی ) بدی کے جواب میں اس سے بہتر سلوک کرتا ، کہ یکایک وہ شخص جس کو تجھ سے روادت سے ایسا ہوجائیگا کہ گویا وہ رشتہ دار دوست ہے
[٤٢] بدی کا جواب بدی سے دینے سے دعوت کو نقصان پہنچتا ہے اور بھلائی سے دینے سے دشمن بھی دوست بن جاتا ہے۔ اس آیت میں دعوت الیٰ اللہ کا ایک زریں اصول بیان کیا گیا ہے۔ پہلے تو یہ بتایا گیا ہے کہ نیکی اور بدی کبھی ایک جیسے نہیں ہوسکتے۔ اور یہ اس لیے بتایا گیا ہے کہ کفار مکہ دعوت اسلام کو کچلنے کے لیے بدترین ہتھکنڈوں پر اتر آئے تھے۔ مسلمانوں کو یہ سمجھایا جارہا ہے کہ بدی کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوسکتا۔ بدی بالآخر بدی کرنے والے کا ہی بھٹہ بٹھا دیتی ہے۔ لہٰذا داعی الیٰ اللہ کو بدی کا جواب کبھی بدی سے نہ دینا چاہئے۔ بلکہ اسے برداشت کرنا چاہئے اسے کوئی فوری جواب نہ دینا چاہئے اور اس سے اگلا اقدام یہ ہونا چاہئے کہ اس کی بدی کا جواب بھلائی سے دیا جائے۔ اس طرح دشمن خود نگوسار اور شرمندہ ہوگا اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ میں نے کیا سلوک کیا تھا۔ اور فریق مخالف کا میرے حق میں سلوک کیا ہے؟ وہ آپ کے خلوص اور آپ کی خیرخواہی اور راست بازی کا معتقد ہوجائے گا حتیٰ کہ آپ کی مخالفت چھوڑ کر آپ کے ساتھ آملے گا اور آپ کا جگری دوست بن جائے گا۔ اور اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کی دعوت الی اللہ کی منزل کھوٹی نہیں ہوگی۔ بلکہ اس میں مزید پیش رفت ہوجائے گی۔ اور اگر آپ برائی کا جواب برائی سے دیں گے تو پھر ادھر سے مزید برائی اٹھے گی اس طرح ایک تو مخالفت پہلے سے بھی بڑھ جائے گی۔ دوسرے تمہارا اصل مقصد فوت ہوجائے گا اور دعوت الی اللہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جائے گا۔