وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ وَفِي آذَانِنَا وَقْرٌ وَمِن بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ إِنَّنَا عَامِلُونَ
اور کہا کہ جس چیز کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے اس سے ہمارے دل پردوں (ف 1) میں ہیں اور ہمارے کانوں میں بوجھ ہیں اور ہمارے اور تیرے درمیان پردہ ہے سو تو اپنا کام کر ہم اپنا کام کرتے ہیں
[٣] قرآن کی ان گونا گوں خوبیوں کے باوجود زیادہ تر لوگ اس کی مخالفت پر اتر آئے ہیں وہ اس کی آیات کو تسلیم کرنا تو درکنار سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ پھر اپنی اس خصلت پر فخر بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی تعلیم ہمارے دلوں پر مطلقاً اثر انداز نہیں ہوسکتی۔ ہمارے دل ایسے اثرات قبول کرنے سے کلیتاً محفوظ ہیں۔ بلکہ ہمیں تو ان آیات کا سننا بھی گوارا نہیں۔ ایسی باتیں سن سن کر ہمارے کان پک گئے ہیں۔ لہٰذا وہ سننے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ( !) تمہاری اس دعوت سے ہمارے اور تمہارے درمیان عداوت کی ایک دیوار حائل ہوچکی ہے اور اس دعوت نے ہمارے اور تمہارے درمیان جدائی ڈال دی ہے۔ لہٰذا ہم تمہاری اس دعوت کو کسی قیمت پر قبول کرنے کو تیار نہیں۔ [٤] اس جملہ کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ ہمیں تم سے اور تمہیں ہم سے اب کوئی سروکار نہیں اور ہم دونوں کبھی مل کر بیٹھ نہیں سکتے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی دعوت سے باز نہیں آتے تو اپنا کام کئے جاؤ۔ ہم بھی تمہاری مخالفت سے کبھی باز نہ آئیں گے۔ اس جملہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مخالفوں کی ایذا رسانیوں اور معاندانہ سرگرمیوں کے باوجود اسلام کی دعوت میں اتنی پیش رفت ہوچکی تھی کہ مخالفین مساویانہ سطح پر گفتگو کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔