سورة غافر - آیت 78

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ ۗ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور تجھ سے پہلے ہم نے کتنے رسول بھیجے ۔ بعض ان میں سے وہ ہیں جن کا حال ہم نے تجھے سنایا اور ان میں سے بعض (ف 1) وہ ہیں جن کا حال ہم نے تجھے نہیں سنایا اور کسی رسول کا اختیار نہ تھا کہ بغیر خدا کے حکم کے کوئی معجزہ لے آتا ۔ سو جب خدا کا حکم آیا تو انصاف سے فیصلہ ہوگیا اور جھوٹوں نے اس وقت نقصان اٹھایا

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩٩] حِسی معجزہ اور اس کے تقاضے :۔ کیونکہ معجزہ نبی کا فعل نہیں ہوتا بلکہ براہ راست اللہ کا فعل ہوتا ہے البتہ اس کا صدور نبی کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ معجزہ محض کھیل تماشا کے طور پر عطا نہیں ہوتا بلکہ اس سے مقصود کسی اہم دینی یا دنیوی غرض کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ بعض انبیاء کو کچھ معجزات ان کے طلب کرنے کے بغیر کافروں پر دلیل نبوت اور اتمام حجت کے طور پر عطا کئے گئے اور اگر کوئی پیغمبر کوئی حسی معجزہ پیش نہ کرے اور قوم اس سے حسی معجزہ کا مطالبہ کرے پھر اللہ تعالیٰ قوم کے مطالبہ پر ایسا معجزہ نبی کو دے دے لیکن کافر قوم پھر بھی ایمان نہ لائے تو اس پر یقیناً عذاب الیم نازل ہوتا ہے۔ جیسے قوم ثمود نے صالح علیہ السلام سے اونٹنی کا معجزہ طلب کیا تھا۔ لیکن ان کے اس معجزہ ملنے کے بعد بھی جب وہ ایمان نہ لائے تو انہیں تباہ کردیا گیا۔ اسی طرح کچھ لوگوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے آسمان سے پکا پکایا اور تیار دستر خوان اترنے کا مطالبہ کیا۔ تو بعض روایات کے مطابق ان کا یہ مطالبہ تو پورا کردیا گیا۔ مگر پھر بھی وہ لوگ ایمان نہ لائے تو انہیں بندر و سور بنا دیا گیا تھا۔ کفار مکہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی طرح کے حسی معجزات کا مطالبہ کرتے تھے جن کا ذکر سورۃ بنی اسرائیل میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے یہ منہ مانگے معجزات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی وجہ سے عطا نہیں فرمائے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہ تھا کہ قوم قریش کو کچل کے رکھ دیا جائے کیونکہ بعد میں انہیں لوگوں میں سے بہت لوگوں نے اسلام لا کر بیش بہا خدمات سرانجام دیں۔ [١٠٠] ''اللہ کے حکم'' سے یہاں مراداللہ کے عذاب کا حکم ہے اور اس کا اطلاق کسی قوم پر دنیا میں عذاب کے دن پر بھی ہوسکتا ہے اور آخرت کے دن پر بھی۔ جو بھی صورت ہو اللہ تعالیٰ رسولوں اور ان کے مخالفوں کے درمیان منصفانہ فیصلہ کردیتا ہے اس وقت رسول سرخرو اور کامیاب ہوتے ہیں اور باطل پرستوں کے حصہ میں ذلت و خسران کے سوا کچھ نہیں آتا۔