سورة البقرة - آیت 34

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو ۔ (ف ١) تو سب نے سجدہ کیا ، سوائے ابلیس کے ، اس نے نہ مانا اور تکبر کیا ۔ اور وہ کافروں میں سے تھا ۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤٦] سجدہ تعظیمی :۔ جب فرشتوں نے آدم علیہ السلام کی فضیلت کو تسلیم کرلیا تو انہیں آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس سجدہ کے متعلق علماء کے دو اقوال ہیں۔ ایک یہ کہ یہ سجدہ چونکہ اللہ کے حکم سے تھا لہٰذا یہ سجدہ آدم علیہ السلام کو نہیں بلکہ اللہ ہی کو سجدہ کرنے کے مترادف تھا اور اللہ ہی کے حکم کی تعمیل تھی۔ دوسرا یہ کہ یہ سجدہ تعظیمی تھا جو ہماری شریعت سے پہلے جائز تھا۔ جیسا کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے بھی سیدنا یوسف علیہ السلام کو سجدہ کیا تھا۔ یہ دونوں توجیہات درست ہیں۔ تاہم شریعت محمدی میں سجدہ تعظیمی کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ [٤٧] ابلیس کی رقابت کی وجہ :۔ ابلیس دراصل جنوں کی جنس سے تھا (١٨ : ٥٠) اور اپنی عبادت گزاری کی کثرت کی بنا پر فرشتوں میں گھلا ملا رہتا تھا۔ جب فتنہ و فساد کی بنا پر فرشتوں نے جنوں کو سمندروں کی طرف مار بھگایا تو اس وقت بھی یہ فرشتوں میں ہی شامل تھا، اور جن بھی چونکہ مکلف مخلوق ہیں اور قوت اختیار و ارادہ رکھتے ہیں۔ لہٰذا جنوں کے بعد ابلیس خود خلافت ارضی کی آس لگائے بیٹھا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو خلیفہ بنا دیا تو یہ اندر ہی اندر جلتا بھنتا رہا اور جب فرشتوں کو حکم سجدہ ہوا تو اس کے اندرونی حسد و کینہ نے جوش مارا اور سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور اکڑ گیا اور آدم پر اپنی فضیلت کا برملا اظہار شروع کردیا (٧ : ١٢) اس وجہ سے راندہ درگاہ الٰہی اور کافر قرار پایا۔ گویا اس کا جرم صرف یہی نہ تھا کہ اس نے سجدہ نہیں کیا بلکہ اس سے زیادہ جرم یہ تھا کہ تکبر کی بنا پر حکم الٰہی کے مقابلہ میں اپنی برتری بیان کرنا شروع کردی۔