اصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُودَ ذَا الْأَيْدِ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ
جو جو باتیں یہ لوگ کہتے ہیں ان پر صبر کر اور ہمارے صاحب قوت بندہ داؤد کو یاد کر بےشک وہ رجوع کرنے والا تھا
[١٩] وَاذْکُرْکا دوسرا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کا قصہ دوسروں سے بیان کیجئے۔ [٢٠] ید اور ذوالاید کا لغوی مفہوم :۔ ذَالاَیْدِ کا لفظی معنی ہاتھوں والا ہے اور تقریباً ہر زبان میں ایسے لفظ بول کر قوت اور طاقت مراد لی جاتی ہے۔ صاحب قوت سے مراد جسمانی قوت بھی ہوسکتی ہے۔ چنانچہ آپ سے متعلق منقول ہے کہ بچپن میں جب آپ بکریوں کا ریوڑ چرایا کرتے تھے تو جب کوئی درندہ ان پر حملہ آور ہوتا آپ اس کے ایک جبڑے کو پکڑ کر دوسرے کو اس زور سے کھینچتے تھے کہ اسے چیر دیتے تھے پھر یہ بھی آپ کی جسمانی قوت ہی تھی کہ آپ نے میدان کارزار میں جالوت کو مار ڈالا تھا۔ اور فوجی اور سیاسی قوت بھی مراد ہوسکتی ہے کہ آپ نے گردوپیش کی مشرک قوموں کو شکست دے کر ایک مضبوط اسلامی سلطنت قائم کردی تھی۔ [٢١] آپ کے اعلیٰ درجہ کے اوصاف :۔ ان کے رجوع الی اللہ اور عبادت گزاری کا یہ حال تھا کہ آپ نے بادشاہی پر ہمیشہ فقیری کو ترجیح دی۔ آپ کی تعریف میں بہت سی صحیح احادیث وارد ہیں۔ آپ نے اپنے ذاتی اخراجات کا بار بیت المال پر نہیں ڈالا تھا بلکہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے اپنا خرچ چلاتے تھے۔ آپ ایک دن روزہ رکھتے، دوسرے دن روزہ نہ رکھتے، زندگی بھر یہی دستور رہا۔ رات کا تہائی حصہ عبادت میں گزارتے تھے۔ آپ نے دن رات کے چوبیس گھنٹوں کو اپنے اور اپنے بال بچوں میں کچھ اس طرح تقسیم کر رکھا تھا کہ کوئی وقت ایسا نہ گزرے جبکہ آل داود میں سے کوئی شخص اللہ کی عبادت میں مصروف و مشغول نہ ہو۔ آپ نے یہ التزام بھی کر رکھا تھا کہ ہر تین دنوں میں ایک دن اللہ کی عبادت کے لئے تھا۔ ایک دن لوگوں کے مقدمات کے فیصلہ کے لئے اور ایک دن امور سلطنت کے انتظام و انصرام میں صرف کرتے تھے۔