سورة يس - آیت 65

الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

آج ہم ان کے منہ پر مہریں کردیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پیر بتلائیں گے جو وہ کرتے (ف 1) تھے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[ ٥٨] کٹر قسم کے مجرم جب اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو اپنے جرائم کا اعتراف کرنے کی بجائے وہاں بھی حسب عادت جھوٹ بولنا شروع کردیں گے اور اپنے گناہوں سے مکر جائیں گے۔ پھر ان پر شہادتیں قائم کی جائیں گی تو ان شہادتوں اور گواہوں کو بھی جھٹلا دیں گے اور یہی کچھ انہوں نے اس دنیا میں سیکھا تھا۔ اب اللہ تعالیٰ ان کا یہ علاج کریں گے کہ ان کی زبانوں سے قوت گویائی سلب کرلیں گے۔ اور ان کے ہاتھوں اور پاؤں کو قوت گویائی عطا کردی جائے گی تو ان کے یہ اعضا جن سے انہوں نے گناہ کے کام سرزد کئے ہوں گے ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ اور سورۃ حم السجدہ کی آیت نمبر ٢٠ کے مطابق ان کے کان، ان کی آنکھیں اور ان کے چمڑے بھی ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ جب ان کے اپنے اعضاء کی گواہیوں کے مطابق ان کے جرم ثابت ہوجائیں گے تو وہ اپنے ان گواہی دینے والے اعضاء کو مخاطب کرکے کہیں گے کہ ظالمو! ہم نے تمہیں بچانے کے لئے ہی تو جھوٹ بولا تھا۔ پھر تم نے یہ کیا ظلم ڈھا دیا ؟ تو اعضاء انہیں جواب دیں گے کہ ’’ہمیں اس اللہ نے قوت گویائی بخشی تھی جس نے ہر چیز کو بخشی ہے‘‘ (٤١: ٢١) پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ ہم صحیح صحیح گواہی نہ دیتے؟ اعضاء وجوارح کی گواہی کیسے ہوگی؟ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ مجرموں کے اعضاء سے ان کے خلاف زبردستی گواہی نہیں لیں گے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ اس بات پر بھی قادر ہے مگر یہ بات اس کی صفت عدل کے خلاف ہے کہ اگر وہ زبردستی ان کے خلاف شہادت چاہتا تو خود ان سے اور ان کی زبانوں سے بھی لے سکتا تھا۔ بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ انسان سے جو اقوال، اعمال اور افعال سرزد ہوتے ہیں تو اس کے اثرات (جسے سورۃ یٰسین میں اٰثَارَھُم کہا گیا ہے) فضا میں مرتسم ہوتے جاتے ہیں اور خود انسان کے اعضا پر بھی مرتسم ہوتے ہیں جدید تحقیق کے مطابق بنی آدم سے لے کر آج تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کے اقوال اور آوازیں بدستور فضا میں موجود ہیں۔ مگر وہ آپس میں ملی جلی اور گڈ مڈ ہیں اور انسان تاحال اس بات پر قادر نہیں ہوسکا کہ کسی خاص شخص کے مثلاً کسی نبی کے تمام تر اقوال الگ کرکے سن سکے۔ البتہ انسان اس بات پر بھی قادر ہوچکا ہے کہ تین چار گھنٹے کے اندر اندر کسی مجرم کے اعضاء کا خوردبینی مطالعہ کرکے یہ معلوم کرسکے کہ اس شخص نے واقعی یہ جرم کیا ہے یا نہیں؟ اور اللہ تعالیٰ تو خود ہر چیز کا خالق اور ہر چیز کی فطرت اور حقیقت کو سب سے بڑھ کر جاننے والا ہے۔ لہٰذا جب مجرم لوگوں کے ان اعضاء کو قوت گویائی دی جائے گی تو وہی حقیقت وہ بیان کریں گے جو ان پر گناہ کے دوران ثبت ہوئی تھی وہ برملا بول اٹھیں گے کہ اس شخص نے ہم سے فلاں اور فلاں گناہ کا کام کیا تھا اور فلاں فلاں وقت کیا تھا۔