سورة يس - آیت 36

سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

وہ پاک ذات ہے جس نے تمام مقابل قسموں کو پیدا کیا نباتات زمین کے قبیل سے بھی اور (خود) ان آدمیوں میں سے بھی اور ان چیزوں میں سے جن کو عام لوگ نہیں جانتے (ف 1)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[ ٣٤] زوج کے مختلف معانی اور ان کی وسعت :۔ ازواج کے کئی معنی ہیں مثلاً اس کا اطلاق نر و مادہ پر بھی ہوتا ہے۔ مرد، عورت کے لئے زوج ہے اور عورت مرد کے لئے۔ اور ان دونوں میں اللہ تعالیٰ نے فطرتی طور پر ایک دوسرے کے لئے کشش رکھ دی ہے۔ پھر اس زوج کے ایک دوسرے سے ملنے سے آگے مزید تخلیق کا سلسلہ چلتا ہے۔ اور یہ سلسلہ صرف حیوانات میں ہی نہیں نباتات میں بھی پایا جاتا ہے۔ کچھ درخت تو ایسے ہیں جن کا عام انسانوں کو بھی علم ہوتا ہے۔ مثلاً کھجور اور انار کے درخت نر بھی ہوتے ہیں اور ما دہ بھی، جب پھل لگنے کا موسم ہوتا ہے تو ہوائیں نر درختوں کا بیج اٹھا کر مادہ درختوں پر پھینک دیتی ہیں۔ تو مزید پیدائش عمل میں آتی ہے۔ اور نباتات کی ہرقسم میں یہ نر و مادہ کا سلسلہ موجود ہے خواہ اس کا ابھی تک انسان کو علم ہوا ہو یا نہ ہو۔ پھر یہ سلسلہ جمادات حتیٰ کہ مادہ کے ایک ذرہ کے اندر بھی پایا جاتا ہے۔ اس میں بھی مثبت اور منفی قوتیں موجود ہوتی ہیں۔ جو آپس میں ایک دوسرے کے لئے کشش رکھتی ہیں۔ دوسرے زوج کا لفظ آپس میں مماثلت رکھنے والی چیزوں کے لئے بھی آتا ہے۔ مثلاً ایک جوتا دوسرے جوتے کا زوج ہوتا ہے۔ اور اس معنی میں بھی یہ لفظ قرآن میں موجود ہے جیسے فرمایا : وَاٰخَرُ مِنْ شَکْلِہٖ أزْوَاج (٣٨: ٥٨) (یعنی اس سے ملتی جلتی دوسری چیزیں) اور ازوج کا تیسرا معنی ایک دوسرے کے مخالف اشیاء جیسے دن رات کا زوج ہے اور رات دن کا یا سایہ دھوپ کا اور دھوپ سایہ کا یا روشنی تاریکی کی زوج اور تاریکی روشنی کی گویا یہ زوج کا سلسلہ اتنا وسیع ہے جو نباتات اور حیوانات کے علاوہ بھی تمام اشیاء میں پایا جاتا ہے۔ خواہ تمہیں اس کا علم ہو یا نہ ہوسکے۔ اس آیت کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے سبحان الذی کا لفظ استعمال فرمایا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ایک ایسی ذات ہے جو ہر قسم کے زوج سے پاک ہے۔ نہ اس کا کوئی مقابل ہے اور نہ مماثل۔ کیونکہ مقابلہ یا مماثلت ان چیزوں میں ہوسکتی ہے جو کسی درجہ میں فی الجملہ اشتراک رکھتی ہوں مگر خالق اور مخلوق کا کسی حقیقت میں اشتراک نہیں ہوتا اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ دنیا میں شرک کی جتنی بھی اقسام پائی جاتی ہیں ان میں سے ہر قسم میں اللہ تعالیٰ اس کی ذات میں کسی نہ کسی کمی، کمزوری، عیب یا نقص کا الزام ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سبحان کا لفظ کہہ کر مشرکوں کے ہر قسم کے شرکیہ عقیدہ کی تردید فرما دی۔