سورة آل عمران - آیت 79

مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کسی بشر کو یہ لائق نہیں کہ اس کو خدا کتاب اور حکم اور نبوت دے پھر وہ لوگوں سے کہے کہ تم خدا کو چھوڑ کر میرے بندے ہوجاؤ بلکہ (یوں کہے کہ) تم خدا والے ہوجاؤ جیسے کہ تم کتاب کی تعلیم دیتے ہو ، اور جیسے کہ تم پڑھتے ہو ۔ (ف ٢)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦٩]کسی مخلوق کوخدائی کےمقام تک لےجانے والاکام کبھی پیغمبر کانہیں ہوسکتا:۔ اس آیت کی شان نزول کے بارے میں کئی اقوال ہیں اور وہ سب ہی درست معلوم ہوتے ہیں مثلاً ان میں سے ایک یہ ہے، جب نجران کے عیسائی آپ سے بحث و مناظرہ کرنے آئے تو یہود ان کے ساتھ مل گئے اور طنزاً آپ سے کہنے لگے کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی پرستش کیا کریں۔ تب یہ آیت نازل ہوئی اور تیسرا یہ قول ہے کہ کسی صحابی نے آپ سے عرض کیا کہ رومی اور ایرانی اپنے اپنے بادشاہوں کو سجدہ کیا کرتے ہیں کیا ہم بھی آپ کو سلام کے بجائے سجدہ نہ کریں؟ تو آپ نے اس بات سے سختی سے منع کیا اور فرمایا کہ اللہ کے سوا اگر کسی کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے کیونکہ شوہر کا بیوی پر بہت حق ہے۔ (ترمذی، ابو اب الرضاع والطلاق، باب ماجاء فی حق الزوج علی المراۃ) تب یہ آیت نازل ہوئی۔ جو کچھ بھی ہو اس آیت میں ایسی تمام باتوں کی جامع تردید ہے جو مختلف قوموں نے پیغمبروں کی طرف منسوب کرکے اپنی مذہبی کتابوں میں شامل کردی ہیں۔ جن کی رو سے کوئی پیغمبر یا فرشتہ معبود قرار پاتا ہے۔ ان آیات میں ایک قاعدہ کلیہ بیان کردیا گیا ہے کہ کوئی ایسی تعلیم جو اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی سکھاتی اور بندے کو خدا کے مقام تک لے جاتی ہو، وہ ہرگز کسی پیغمبر کی تعلیم نہیں ہوسکتی اور جہاں کسی مذہبی کتاب میں کوئی ایسی بات پائی جائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ گمراہ کن عقیدہ لوگوں کی تحریفات کا نتیجہ ہے۔ [٧٠]نبی کااپنی پرستش کےلیے کہناناممکن ہے:۔ یہودیوں کے وہ علماء جو مذہبی عہدہ دار ہوتے تھے۔ ربانی کہلاتے تھے۔ ان کا کام مذہبی امور میں لوگوں کی رہنمائی کرنا اور عبادات کا قیام اور احکام دین کا اجرا کرنا ہوتا تھا۔ اس آیت میں بتلایا جارہا ہے کہ نبی کا کام یہ نہیں ہوتا کہ پہلے لوگوں کو اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دے۔ پھر جب وہ اس کی اطاعت کرنے لگیں تو ان سے اپنی پرستش کرانا شروع کر دے بلکہ اس کا کام ربانی قسم کے لوگ تیار کرنا ہوتا ہے اور جو کتاب اسے دی جاتی ہے اور جسے تم لوگ پڑھتے پڑھاتے ہو اس کا بھی یہی تقاضا ہوتا ہے۔ کیونکہ انبیاء کا کام کفر و شرک کو مٹانا ہوتا ہے۔ پھیلانا نہیں ہوتا اور انبیاء یا کسی دوسرے کو رب بنا لینے سے بڑھ کر کفر و شرک کی اور کیا بات ہوسکتی ہے؟ علماء کورب بنانے کا مطلب :۔ واضح رہے کہ اپنے علماء و مشائخ کی باتوں کے سامنے بلاتحقیق سر تسلیم کردینا بھی انہیں اپنا رب قرار دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ جب یہ آیت ﴿ اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ﴾ نازل ہوئی تو حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ (جو پہلے عیسائی تھے) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ ہم نے اپنے علماء و مشائخ کو رب تو نہیں بنا رکھا تھا۔ آپ نے فرمایا : کیا یہ بات نہ تھی کہ جس چیز کو وہ حلال کہتے تم اسے حلال اور جسے وہ حرام کہتے تم اسے حرام تسلیم کرتے تھے؟ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہنے لگے ہاں یہ بات تو تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہی رب بنانا ہوتا ہے۔‘‘ (ترمذی ابو اب التفسیر، زیر تفسیر آیت مذکورہ)