سورة فاطر - آیت 43

اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ ۚ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ ۚ فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ ۚ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

یہ بسبب ان کے زمین میں تکبر کرنے اور بری تدبیریں سوچنے کے اور بری تدبیر کا اثر بری تدبیر کرنے (ف 2) والے ہی پر پڑتا ہے ۔ تو کیا اب وہ اگلوں کے دستورہی کی راہ دیکھتے ہیں ؟ سو تو خدا کے دستور میں ہرگز تبدیلی نہ پائے گا اور نہ تو ہرگز خدا کے دستور کو ٹلتا ہوا پائے گا ۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[ ٤٩] یعنی ان چودھریوں اور سرداروں کا اپنے نبی کی مخالفت کرنا کوئی نئی بات نہیں تھی۔ پہلے بھی سرکش اور نافرمان قومیں یہی کچھ کرتی رہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ بھی ہمیشہ یہی رہی کہ وہ ایسے باغیوں کو سر کچلتا رہا۔ اور اپنے انبیاء کی اور اس پر ایمان لانے والوں کی سرپرستی کرتا اور ان کی مدد کرکے ان ظالموں سے نجات دلاتا رہا ہے۔ اور اللہ کا یہ ایسا طریقہ ہے جس میں تخلف یا تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا۔ گویا اس آیت میں معاندین حق کے لئے یہ دھمکی اور پیشین گوئی تھی کہ اگر تم نے اپنا یہ معاندانہ رویہ نہ بدلا تو تمہیں بھی ایسے برے انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔ جس سے سابقہ اقوام دوچار ہوچکی ہیں۔ [ ٥٠] اللہ کا دستور یہ ہے کہ وہ اپنے انبیاء کے مخالفوں کی کمر توڑ دے۔ اس دستور میں ایسا تغیر کبھی نہیں آسکتا کہ اللہ تعالیٰ ایسے مجرموں کو سزا دینے کی بجائے ان پر انعام و اکرام کرنے لگے یا ان مجرموں کی سزا دوسرے لوگوں کو دینے لگے۔