سورة فاطر - آیت 9

وَاللَّهُ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنَاهُ إِلَىٰ بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَحْيَيْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ كَذَٰلِكَ النُّشُورُ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اللہ وہ ہے جو ہوائیں چلاتا ہے پھر وہ بادل اٹھاتی ہیں پھر ہم اس بادل کو مردہ شہر کی طرف ہانک لے جاتے ہیں ۔ پھر اس سے زمین کو اس کے مرے پیچھے زندہ کرتے ہیں ۔ اسی طرح (مردوں کا) جی اٹھنا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[ ١٣] نباتات کی پیدائش سے معاد پر دلیل :۔ یہ ایک عام انسانی مشاہدہ سے معاد پر دلیل ہے۔ انسانی مشاہدہ یہ ہے کہ بارش ہوتی ہے تو خشک، بنجر اور مردہ زمین یک دم زندہ ہو کر نباتات سے لہلہا اٹھتی ہے پھر اس سے صرف نباتات ہی پیدا نہیں ہوتی ہزاروں جانور، مینڈک، حشرات الارض اور جھینگر وغیرہ بھی پیدا ہو کر اپنی اپنی بولیاں بولنے لگتے ہیں۔ یہ آخر کہاں سے پیدا ہوگئے؟ بالکل یہی کیفیت انسانوں کے زمین سے جی اٹھنے کی بھی ہوگی۔ اور روایات میں آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا کہ تمام انسان زندہ ہو کر اپنی اپنی قبروں سے اگ آئیں یا اٹھ کھڑے ہوں تو عرش کے نیچے سے ایک خاص قسم کی بارش ہوگی جس سے سب انسان زندہ ہو کر زمین سے اس طرح نکل آئیں گے جس طرح برسات سے کھیتی اور حشرات الارض نکل آتے ہیں۔ ان میں فرق صرف یہ ہے کہ جو چیز انسان کے مشاہدہ میں آچکی ہے۔ اسے من و عن تسلیم تو کرلیتا ہے لیکن اس میں غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا اور جو چیز اس کے مثل ہے مگر ابھی اس کے مشاہدہ میں نہیں آئی اس سے انکار کردیتا ہے۔