وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ كَافِرُونَ
اور ہم نے جس بستی میں کوئی ڈرانے والا بھیجا وہاں کے دولت مندوں نے یہی کہا کہ جو کچھ (پیغام) تمہارے ہاتھ بھیجا گیا ہے ہم اس کے منکر ہیں
[ ٥٢]انبیاء کی مخالفت میں سب سےپیش پیش آسودہ حال لوگ ہوتےہیں:۔ یعنی یہ صرف قریش مکہ کی بات نہیں بلکہ ہر نبی کے ساتھ (اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ) یہی معاملہ پیش آیا کہ جب نبی نے انھیں اللہ کا پیغام پہنچایا تو اس کی مخالفت کرنے میں سب سے پیش پیش وہی لوگ تھے جو خوشحال اور آسودہ تھے۔ جن کے پاس کوٹھیاں اور بنگلے تھے۔ نوکر چاکر تھے۔ بنک بیلنس بھی موجود تھا اور سواریاں بھی خاصی تعداد میں تھیں۔ ایسے لوگ بھلا پیغمبروں کی بات کا ہے کو مانتے۔ جبکہ پیغمبر انھیں ہر جائز و ناجائز طریقے سے مال جمع کرنے سے روکتے تھے۔ پھر وہ یہ بھی کہتے تھے کہ سارا مال و دولت اپنے پاس ہی سمیٹ کر نہ رکھو بلکہ اس سے اقرباء اور محتاجوں کا حق ادا کرو۔ پھر اگر وہ لوگ پیغمبروں کی دعوت قبول کرتے تو انھیں مندرجہ بالا پابندیوں کے علاوہ پیغمبر کا مطیع فرمان بن کر بھی رہنا پڑتا تھا۔ لہٰذا یہ خوشحال طبقہ صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتا کہ نبی کی دعوت کو خود ہی رد کرے بلکہ جن لوگوں پر اس طبقہ کا اثر و رسوخ ہوتا ہے ان سب کو نبی کی مخالفت پر آمادہ کردیتے ہیں اور اس کام پر وہ پیسہ بھی بےدریغ خرچ کرتے ہیں۔