وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ ۚ حَتَّىٰ إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ ۖ قَالُوا الْحَقَّ ۖ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ
اور خدا کے نزدیک شفاعت کچھ فائدہ نہیں دیتی ۔ مگر اس کے لئے جس کے واسطے اللہ اذن دے ۔ یہاں تک کہ جب تک ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ پھر آپ کہتے ہیں سچ بات فرمائی ہے اور وہی بلند مرتبہ سب سے بڑا ہے
[ ٣٧]اللہ کے ہاں سفارش کا ضابطہ:۔ اکثر مشرکوں کا اپنے معبودوں کے متعلق یہ عقیدہ بھی پایا جاتا ہے کہ وہ بڑے خدا یعنی اللہ کے ہاں ان کی سفارش کرتے ہیں اگرچہ کام بنانے والا اللہ ہی ہوتا ہے۔ ہمارے یہ معبود یا بزرگ اللہ کے ہاں ہماری سفارش کرکے ہمارے کام اللہ سے کروانے کا سبب ہوتے ہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ نے سفارش کے متعلق بھی اپنا ضابطہ بیان فرما دیا۔ اور یہ ضابطہ پہلے قرآن میں متعدد بار گزر چکا ہے۔ مختصراً یہ کہ (١) اللہ کے ہاں سفارش وہی شخص کرسکے گا، جس کو اللہ کی طرف سے اجازت ملے گی۔ یہ کیا معلوم کہ جسے تم نے سفارشی سمجھ رکھا ہے۔ اسے اجازت بھی ملتی ہے یا نہیں، (٢) اس شخص کے حق میں سفارش کی جاسکے گی، جس کے متعلق اللہ چاہے اور تمہیں یہ کیسے معلوم ہوسکتا ہے کہ تمہارے حق میں اللہ کی طرف سے سفارش کی اجازت کسی کو ملتی ہے یا نہیں؟ (٣) اور صرف اس گناہ کی مغفرت کی سفارش کی جاسکتی ہے جس کے متعلق اللہ چاہے۔ یہ قید سفارش کے تصور کو اور بھی محدود بنا دیتی ہے۔ پھر تم کس خیال میں ان معبودوں یا بزرگوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہو۔ بروقت اپنی فکر خود کرلو اور کسی کی سفارش پر تکیہ مت رکھو۔ [ ٣٨]اللہ تعالیٰ کاجلال اور دہشت:۔ تم اللہ کے ہاں سفارش کی بات کرتے ہو جس کی جلالت اور عظمت شان کا یہ حال ہے کہ جب اس کی طرف سے کوئی حکم نازل ہوتا ہے تو اس کے پاس رہنے والے مقرب فرشتے تھر تھر کانپنے لگتے ہیں اور گھبرا جاتے ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے لئے از راہ عاجزی اپنے پر مارتے ہیں اور ایسی آواز آتی ہے جیسے کسی زنجیر کو صاف پتھر پر کھینچنے سے آتی ہے۔ پھر جب انھیں ہوش آتا ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتا ہے تمہارے پروردگار نے کیا کہا۔ دوسرا کہتا ہے کہ جو کہا درست کہا اور وہ بزرگ و برتر ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اور شیطان زمین اور آسمان کے درمیان ایک دوسرے کے اوپر جمع ہوجاتے ہیں (تاکہ آسمانی خبریں چرا سکیں) (ترمذی۔ کتاب التفسیر) ایسے جاہ و جلال والے اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی کو یہ جرات ہوسکتی ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کرسکے۔ اور تم لوگ کس قسم کی خوش فہمیوں میں مبتلا ہو؟ محدثین اس حدیث کو اس آیت کی تفسیر میں اس لئے لائے ہیں کہ اہل عرب میں سے ایک گروہ فرشتوں کو کارگاہ عالم میں متصرف سمجھ کر ان کی پوجا کرتا تھا اور جو لوگ ان میں سے آخرت کے کسی حد تک قائل تھے وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر قیامت کو باز پرس ہوئی بھی تو یہ فرشتے اللہ کے ہاں ہماری سفارش کرکے ہمیں چھڑا لیں گے۔ اور بعض مفسرین نے اس آیت کو ان مشائخ اور پیروں سے متعلق کیا ہے جو اپنے مریدوں کو شفاعت کرکے چھڑا لینے کے وعدے کرتے اور کسی نہ کسی پیر کے دامن سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ یعنی کیا شافع اور کیا مشفوع دونوں قیامت کے دن کی گھبراہٹ سے سخت گھبرائے ہوئے ہوں گے اور دونوں اس انتظار میں ہوں گے کہ شفاعت کرنے کی اجازت ملتی بھی ہے یا نہیں۔ پھر اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے شافع کو شفاعت کی اجازت مل جائے تو اس کی گھبراہٹ کسی حد تک دور ہوجاتی ہے جس کو مشفوع بھانپ کر اس سے پوچھتا ہے کہ کیا جواب ملا تو شافع کہتا ہے کہ معاملہ ٹھیک ہے اجازت مل گئی ہے تو اس وقت مشفوع کی جان میں جان آتی ہے۔ اس میں شافع اور مشفوع دونوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ تم نے شفاعت سے متعلق جس قسم کا تصور باندھ رکھا ہے وہ قطعاً غلط ہے۔ اللہ کی بارگاہ اتنی عالی مرتبت اور بڑی ہے کہ وہاں اللہ کی اجازت کے بغیر نہ مقرب فرشتوں کو دم مارنے کی ہمت ہوتی ہے اور نہ کسی اور بڑی شخصیت کو۔ کسی کو یوں کہنے کی ہمت نہ ہوگی کہ وہ اللہ تعالیٰ سے یوں کہہ سکے کہ یہ تو میرے دامن سے وابستہ ہے۔ لہٰذا اسے بخشنا ہی پڑے گا۔ کیونکہ شافع کو تو اپنی بھی خبر نہیں کہ اس کا کیا حال ہوگا وہ بھلا دوسروں کی ذمہ داری کیسے لے سکتا ہے۔