فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ
پھر جب ہم نے اس پر موت کو مقرر کیا توجنوں کو اس کی موت کی خبر کسی نے نہ دی ۔ مگر گھن کے کیڑے نے کہ اس کے عصا کو کھاتا رہا ۔ پس جب وہ گرپڑا توجنوں نے جانا کہ اگر وہ غیب جانتے تو ذلت کے عذاب میں نہ رہتے
[ ٢٣] جن اورہیکل سلیمانی کی تعمیر:۔ جس وقت حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آگیا اور آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشارہ ہوگیا کہ اب دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں۔ اس وقت آپ نے جنوں کو بیت المقدس کی تعمیر پر لگایا ہوا تھا جسے ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔ اس وقت تعمیر کا ابھی خاصا کام باقی تھا۔ آپ نے باقی کام کا پورا نقشہ جنوں کے سربراہ کے حوالہ کردیا اور پوری طرح مکمل کام سمجھا دیا تھا۔ پھر اپنے عبادت خانے میں آکر عبادت میں کھڑے ہوگئے۔ اور اپنی لاٹھی سے ٹیک لگا لی۔ سیدناسلیمان کی وفات اورجنوں کاکام کرتے رہنا :۔آپ کا یہ عبادت خانہ ایسا تھا جس میں شیشے کی کھڑکیاں تھیں اور باہر سے دیکھنے والا حضرت سلیمان کو عبادت میں مصروف دیکھ سکتا تھا۔ آپ عبادت میں کھڑے ہوئے تو اسی حالت میں فرشتے نے روح قبض کرلی اور آپ لاٹھی کے سہارے کھڑے کے کھڑے ہی رہے۔ جن اور بعض دوسرے لوگ آپ کو کبھی کبھار عبادت میں مصروف دیکھ جاتے تھے۔ اسی حالت میں تقریباً چار ماہ گزر گئے۔ چار ماہ بعد ادھر بیت المقدس کی تعمیر مکمل ہوئی اور ادھر وہ لاٹھی ٹوٹ گئی جس کے سہارے آپ کی میت کھڑی تھی۔ لاٹھی کو اندر ہی اندر دیمک نے چاٹ کر ختم کردیا تھا۔ لاٹھی ٹوٹی تو آپ کی میت گر پڑی۔ تب لوگوں کو اور تعمیر پر متعین جنوں کو معلوم ہوا کہ حضرت سلیمان تو بہت عرصہ پہلے کے فوت ہوچکے ہیں۔ اس وقت جنوں کو سخت افسوس ہوا کہ وہ اتنا عرصہ مفت میں محنت مشقت جھیلتے رہے۔ اس وقت جنوں کی یہ غلط فہمی دور ہوگئی کہ وہ غیب جانتے ہیں اور ان لوگوں کی بھی جو یہ سمجھتے تھے کہ جن غیب جانتے ہیں اور اپنے اسی اعتقاد کی بنا پر جنوں کی تسخیر کے لئے طرح طرح چلے کاٹتے اور پاپڑ بیلتے تھے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ جس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہے اس کے لئے کیسے کیسے اسباب مہیا کردیتا ہے۔