تُرْجِي مَن تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاءُ ۖ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَا آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَلِيمًا
ان عورتوں میں سے جسے تو چاہے علیحدہ رکھ دے اور جسے چاہے اپنی طرف جگہ دے اور جن کو تونے علیحدہ کردیا تھا اگر ان میں سے تو کسی کی خواہش کرے تو تجھ پر کچھ گناہ نہیں ۔ اس میں زیادہ قریب ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور غم نہ کریں اور وہ سب اس پر جو تونے انہیں دیا راضی رہیں اور اللہ چاہتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہے اور اللہ جاننے والا بردبار ہے
[٨١] بیویوں کی باری کے سلسلے میں آپ کو خصوصی ہدایت :۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اور رعایت یہ مل گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سے اپنی بیویوں کے پاس باری باری رہنے کی پابندی اٹھا لی گئی۔ بالفاظ دیگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا آپ پر یہ حق ساقط کردیا گیا کہ فلاں رات آپ باری کے حساب سے فلاں بیوی کے پاس رہیں گے۔ اور اس سقوط حق سے اللہ تعالیٰ کا مقصد نبی اور اس کی بیویوں دونوں پر سے تنگی کو رفع کرنا مقصود تھا۔ نبی کی تنگی کا دور ہونا تو واضح ہے اور بیویوں سے تنگی کا دور ہونا اس لحاظ سے ہے کہ جب انھیں یہ معلوم ہوجائے گا کہ فلاں باری کے دن نبی کا اس کے ہاں شب بسری کرنا اس کا حق نہیں ہے تو ان کے باہمی تنازعات اور چپقلش از خود ختم ہوجائیں گے کیونکہ تنازعات کی بنیاد ہی حقوق سے تعلق رکھتی ہے۔ پھر جب حق ہی نہ رہا تو تنازعات کیسے؟ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دی گئی اس رعایت سے کبھی فائدہ نہیں اٹھایا اور اپنی بیویوں کی باری کو ملحوظ خاطر رکھا جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث سے واضح ہے۔ رعایت کے باوجود آپ نے ہمیشہ باری کو ملحوظ رکھا :۔ (١) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بیوی کی باری کے دن دوسری بیوی کے ہاں جانا منظور ہوتا تو آپ باری والی بیوی سے اجازت لیا کرتے تھے۔ معاذہ (راوی) کہتے ہیں کہ اس آیت کے اترنے کے بعد میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : ’’اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے اجازت لیتے تو آپ کیا کہتیں؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’میں تو کہتی کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے پوچھتے ہیں تو میں تو یہ چاہتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ہی رہیں۔‘‘ (حوالہ ایضاً) (٢) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر پر جانا چاہتے تو اپنی عورتوں پر قرعہ ڈالتے جس عورت کا نام قرعہ میں نکلتا اس کو ساتھ لے جاتے اور ہر عورت کے پاس باری باری ایک ایک دن رات رہتے۔ صرف سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا نے (جو بہت بوڑھی ہوگئی تھیں) اپنا دن رات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بخش دیا تھا۔ ان کی غرض یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوں۔ (بخاری۔ کتاب الھبة۔ باب ھبۃ المرأۃ لغیر زوجھا) (٣) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور آپ کی بیماری سخت ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری بیویوں سے بیماری میں میرے گھر رہنے کی اجازت چاہی تو انہوں نے اجازت دے دی۔ (بخاری۔ کتاب الھبۃ۔ باب ھبۃ الرجل لامرأتہ والمرأۃ لزوجھا) [٨٢] یعنی وہ اللہ کے احکام سے خوش ہوجائیں اور باہمی جذبہ رقابت اور مسابقت کی الجھنوں میں پڑنے کی بجائے یکسو ہو کر نبی کے مشن میں اس کا ہاتھ بٹائیں اور جس طرح نبی اپنے کام میں پوری جدوجہد کر رہا ہے مصائب برداشت کررہا ہے اور تنگی ترشی سے بے نیاز رہ کر کررہا ہے۔ اسی طرح وہ بھی قناعت اور ایثار سے کام لیں۔ بلکہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کو اپنا مقصد حیات قرار دے کر خوشدلی سے سب کام انجام دیں اور یہ سمجھ لیں کہ باری کے حق کا سقوط آپ کی مرضی اللہ عنہی سے نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے ہوا ہے۔ [٨٣] ’’تمہارے دلوں‘‘ کا خطاب ازواج کی طرف بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی اگر تم نے اللہ کے ان احکام کو خوشدلی کے بجائے دل کی گھٹن سے یا کبیدہ خاطر ہو کر کیا ہے تو اللہ اسے بھی جانتا ہے اور اس پر گرفت ہوگی اور اگر اس لفظ کا خطاب عام لوگوں کی طرف ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ اگر ان حقائق کے بجائے نبی کی ازدواجی زندگی سے متعلق تمہارے دلوں میں کوئی اور بدگمانی پیدا ہو تو وہ بھی اللہ سے چھپی نہ رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ساتھ ہی اپنی صفت حلیم کا ذکر فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے دل میں کوئی وسوسہ پیدا ہو جسے وہ دل سے نکال دے تو اللہ اس پر گرفت نہیں فرمائے گا۔