يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
اے نبی ہم نے تیرے لئے تیری وہ عورتیں حلال کردی ہیں جن کا مہر تو دے چکا ہے اور وہ (لونڈیاں بھی) جو تیرے ہاتھ کا مال ہے جو خدائے تیرے ہاتھ کا مال ہے جو خدا نے تیرے ہاتھ لگوا دیا ہے ۔ اور تیرے چچا کی بیٹیاں اور تیری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموں کی بیٹیاں اور تیری خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے اور مومن عورت (بھی حلال ہے) اگر اپنی جان نبی کو بخش دے (ف 2) (یعنی بن مہر نکاح میں آنا چاہے) اگر نبی بھی اس کو نکاح میں لینا چاہے (توجائز ہے) یہ خاص تیرے ہی لئے ہے سوا اور ایمانداروں کے ہمیں معلوم ہے جو ہم نے ان پران کی بیویوں اور ان کے ہاتھ کے مال (لونڈیوں) کے حق میں فرض کیا ہے تاکہ تیرے اوپر تنگی نہ رہے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے
[ ٧٨] آپ کو چار سے زائد بیویوں کی خصوصی اجازت اور اس کی وجہ :۔ یہ دراصل ایک اعتراض کا جواب ہے۔ سیدنا زینب بنت جحش جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے نکاح کیا تھا یا جن کا نکاح سات آسمانوں پر ہوا تھا آپ کی پانچویں بیوی تھیں۔ اس سے پہلے چار بیویاں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بنت ابی بکر، سیدہ سودہ بنت زمعۃ رضی اللہ عنہا، سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا بنت عمر اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا موجود تھیں۔ اور عام مومنوں کے لئے چار بیویوں سے زائد کا جواز نہیں تھا۔ اس آیت کی رو سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس عام قاعدہ سے مستثنیٰ کردیا۔ یہ اعتراض کافروں کی طرف سے تو یقیناً تھا تاہم مسلمانوں کو بھی اس کا خیال آسکتا تھا۔ لہٰذا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ وضاحت فرما دی کہ عام مومنوں کے لئے چار تک بیویوں کے جواز کا قانون بھی ہمارا ہی قانون ہے۔ اور نبی سے ہم جو کچھ کام لینا چاہتے ہیں اور جو ذمہ داریاں اس پر عائد ہوتی ہیں اس کی بنا پر ہم ہی نبی کے لئے اس عام قانون میں استثناء کرنے والے ہیں۔ نیز اس آیت کی رو سے اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید بھی تین قسم کی عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت فرما دی۔ پہلی قسم وہ عورتیں جو مال غنیمت کے طور پر آپ کی ملکیت میں آئیں۔ دوسری آپ کے چچاؤں، پھوپھیوں، ماموؤں اور خالاؤں کی بیٹیاں جو ہجرت کرکے مدینہ آچکی ہوں۔ اور سیدہ زینب بنت جحش ایسی ہی تھیں۔ تیسری قسم وہ عورتیں جو از خود اپنے آپ کو آپ سے نکاح کے لئے پیش کریں اور اگر اپنانفس ہبہ کرنے والی کوئی عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند آجائے تو اس کا حق مہر کچھ نہیں ہوگا۔ نہ گواہوں کی ضرورت ہوگی اور نہ اس عورت کے ولی کی رضا کی۔ بس عورت کا اپنا نفس ہبہ کردینا ہی نکاح سمجھا جائے گا۔ اس سلسلہ میں درج ذیل دو احادیث ملاحظہ فرما لیجئے۔ کون کون سی عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی بن سکتی ہے؟ ١۔ ام ہانی رضی اللہ عنہا (ابوطالب کی بیٹی اور آپ کی چچا زاد بہن) کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نکاح کا پیغام دیا مگر میں نے معذرت کردی (کہ میرے چھوٹے چھوٹے رونے پیٹنے والے بچے ہیں) آپ نے میرا عذر قبول فرما لیا۔ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں تو آپ پر حلال بھی نہیں کیونکہ میں نے ہجرت نہیں کی تھی اور فتح مکہ کے بعد اسلام لانے والوں سے تھی۔ (ترمذی کتاب التفسیر) سیدہ عائشہ کا تبصرہ :۔ ٢۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے ان عورتوں پر غیرت آئی تھی جو اپنے تئیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بخش دیتی تھیں میں کہتی، بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ کوئی عورت اپنے تئیں بخش دے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی تو میں نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے) کہا : ’’میں تو یہ دیکھ رہی ہوں کہ جیسی آپ کی خواہش ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پروردگار فوراً ویسا ہی حکم دیتا ہے‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) [ ٧٩] خصائص انبیاء :۔ اس رعایت کا تعلق قریبی مضمون سے بھی ہوسکتا ہے اور سارے مضمون سے بھی۔ قریبی مضمون سے ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ اگر کوئی عورت آپ کے لئے اپنا نفس ہبہ کرے تو آپ کو حق مہر نہیں دینا ہوگا۔ نہ گواہوں کی ضرورت ہے اور نہ ولی کی اجازت کی۔ اور سارے مضمون سے جوڑا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ چار سے زائد بیویوں کی اجازت صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے دوسرے مسلمانوں کو نہیں ہے۔ نبی کی چونکہ ذمہ داریاں عام مسلمانوں سے زیادہ ہوتی ہیں پھر ان کا عزوشرف بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے شریعت کے کئی احکام و ارشادات ایسے ہیں جو عام مسلمانوں سے الگ ہیں۔ پھر ان کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو ایسے امور ہیں جو تمام انبیاء سے مختص ہیں اور انھیں ہم خصائص انبیاء کہہ سکتے ہیں اور وہ درج ذیل ہیں : ١۔ نبی کا خواب بھی وحی ہوتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں صلح حدیبیہ سے پیشتر عمرہ کرنے کا خواب آیا تھا۔ (٤٨: ٢٧) یا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کا خواب آیا تھا۔ (٣٧: ١٠٢) ٢۔ انبیاء کا ترکہ وارثوں میں تقسیم نہیں ہوتا بلکہ وہ صدقہ ہوتا ہے جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہمارا (پیغمبروں کا) کوئی وارث نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے‘‘ (مسلم۔ کتاب الجہاد و السیر۔ باب حکم الفئی) اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے وارث ایک دینار بھی بانٹ نہیں سکتے۔ میری بیویوں کے خرچ اور میرے عامل کی اجرت کے بعد جو کچھ میں چھوڑ جاؤں وہ صدقہ ہے۔ (مسلم۔ حوالہ ایضاً) ٣۔ انبیاء کے اجسام کو مٹی نہیں کھاتی۔ اوس بن اوس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے۔ اسی دن آدم پیدا کئے گئے، اسی دن فوت ہوئے۔ اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی میں نفخہ ہے۔ اس دن مجھ پر زیادہ درود بھیجو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہمارا درود آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیسے پیش کیا جاتا ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہڈیاں پرانی ہوچکی ہوں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کے جسموں کو کھانا حرام کردیا ہے‘‘ (ابوداؤد۔ نسائی۔ ابن ماجہ۔ دارمی۔ بیہقی فی دعوات الکبیر۔ بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب الجمعۃ۔ فصل ثانی) اس کا یہ مطلب نہیں کہ انبیاء کے علاوہ سب لوگوں کے مردہ اجسام کو مٹی کھا جاتی ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ انبیاء کے اجسام کو تو بہرحال نہیں کھاتی اور امت میں سے بھی ایسے لوگ ہوسکتے ہیں جنہیں مدت دراز تک مٹی نہ کھائے۔ البتہ عام قاعدہ یہی ہے کہ مردہ اجسام کو زمین کھا جاتی ہے۔ ٤۔ موت سے پہلے اختیار۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں سنا کرتی تھی کہ کوئی پیغمبر اس وقت تک نہیں مرتا جب تک اس کو یہ اختیار نہیں دیا جاتا کہ دنیا اختیار کرے یا آخرت۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض الموت میں سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اچھو ہوا اور فرمانے لگے۔ یا اللہ! ان لوگوں کے ساتھ جن پر تو نے انعام کیا آخر آیت تک۔ اس وقت میں سمجھ گئی کہ آپ کو وہ اختیار مل گیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم ووفاتہ) ٥۔ ہر نبی کو مرنے سے پہلے جنت میں ٹھکانا دکھا دیا جاتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تندرست تھے تو فرماتے تھے کہ کوئی پیغمبر اس وقت تک نہیں مرا جب تک اس کو بہشت میں اس کا مقام دکھا نہیں دیا جاتا۔ پھر اسے اختیار دیا جاتا ہے زندہ رہے چاہے آخرت اختیار کرے۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً) ٦۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ معراج کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں اس کے بعد آپ نے ان فرشتوں کو دوسری رات دیکھا۔ جیسے آپ دل سے دیکھا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سوتی تھیں اور دل نہیں سوتا تھا اور سب پیغمبروں کا یہی حال ہے کہ ان کی آنکھیں سوتی ہیں مگر دل نہیں سوتا۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم تنام عینہ ولا ینام قلبہ۔۔) ٧۔ نبی جس مقام پر فوت ہو اسی مقام اور جگہ پر دفن ہوتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ معاملہ زیر بحث آیا کہ آپ کو کہاں دفن کیا جائے؟ اور اس تکرار کا اسی حکم کے مطابق ہی فیصلہ ہوا اور آپ کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں دفن کیا گیا۔ اور استقصاء کرنے سے ان امور میں مزید اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ خصائص النبی صلی اللہ علیہ وسلم:۔ اور دوسری قسم وہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے احکام الگ ہیں اور آپ کی امت کے الگ۔ ایسے امور کو ہم خصائص النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ سکتے ہیں اور وہ درج ذیل ہیں۔ ١۔ امتی کے لئے زیادہ سے زیادہ چار بیویاں جائز ہیں۔ جبکہ آپ کو چار سے زائد بیویوں کی خصوصی اجازت دی گئی جیسا کہ اسی حاشیہ کی ابتدا میں ذکر ہوچکا ہے۔ ٢۔ آپ پر بیویوں کا حق مہر اور نان و نفقہ واجب نہیں تھا۔ تفصیل اسی سورۃ کے حاشیہ نمبر ٨٠ میں دیکھئے۔ ٣۔ بیویوں کی باری کے سلسلہ میں بھی آپ سے یہ پابندی اٹھا لی گئی۔ تفصیل اسی سورۃ کے حاشیہ نمبر ٨١ میں دیکھئے۔ ٤۔ آپ پر نماز تہجد فرض تھی جبکہ امت کے لئے اس کی حیثیت سنت موکدہ کی ہے۔ تفصیل سورۃ بنی اسرائیل کے حاشیہ ٩٨ئ، ٩٩ ء میں دیکھئے۔ وصلی روزوں کی ممانعت :۔ ٥۔ آپ خود وصلی روزے رکھتے ہیں لیکن امت کو وصلی روزے سے منع فرمایا۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو وصلی روزے رکھنے سے، ان پر رحم کی بنا پر منع فرمایا (یعنی روزہ پر روزہ رکھنے سے جن کے درمیان افطار نہ کیا جائے) صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ تو وصل کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ میری صورت حال تمہارے جیسی نہیں ہے۔ مجھے تو میرا پروردگار کھلا اور پلا دیتا ہے۔ (مسلم۔ کتاب الصیام۔ باب النہی عن الوصال) (بخاری۔ کتاب التمنی۔ باب مایجوز من اللَّو۔۔۔) بُودار اشیاء کے استعمال سے متعلق حکم :۔ ٦۔ لہسن یا بووالی چیزوں کا حکم۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ جو شخص لہسن یا پیاز (کچی) کھائے وہ ہم سے الگ رہے یا یوں فرمایا کہ ہماری مسجد سے الگ رہے اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے (جب تک اس کے منہ میں بو رہے) نیز جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بدر کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے طباق لایا گیا جس میں کچھ سبزی ترکاری تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں بو محسوس ہوئی۔ آپ نے اس کے متعلق پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ اس میں فلاں فلاں ترکاری ہے۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں کھایا اور) فرمایا کہ اسے فلاں صحابی (ابوایوب انصاری) کے پاس لے جاؤ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے۔ ابو ایوب انصاری نے جب یہ معاملہ دیکھا تو انہوں نے بھی اسے کھانے میں کراہت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فرمایا : تم کھالو۔ کیونکہ میں تو ان (فرشتوں) سے سرگوشی کرتا ہوں جن سے تم نہیں کرتے۔ (بخاری۔ کتاب الاعتصام۔ باب الاحکام التی تعرف بالدلائل۔۔) ٧۔ آپ نے صدقہ کے متعلق امت کو حکم دیا کہ افضل الصدقۃ ما کان عن ظھر غنی یعنی بہتر صدقہ وہ ہے کہ صدقہ کرنے کے بعد انسان خود محتاج نہ ہوجائے۔ (بخاری۔ کتاب النفقات۔ باب وجوب النفقۃ علی الاہل والعیال) لیکن آپ خود قرض اٹھا کر بھی صدقہ کردیا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ زکوٰ ۃ جو آپ پر بھی فرض تھی، اس کے ادا کرنے کا کبھی موقعہ ہی نہ آیا۔ ٨۔ آپ اور آپ کے اہل خانہ کوئی نیکی کا کام کریں تو دگنا اجر اور نافرمانی پر دگنی سزا قرآن سے ثابت ہے۔ حتیٰ کہ آپ کو بخار بھی دوگنی شدت سے چڑھتا تھا۔ چنانچہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں آپ کے ہاں گیا۔ آپ کا جسم بخار سے جل رہا تھا۔ میں نے کہا : یارسول اللہ ! آپ کو بخار بہت سخت آیا ہے۔ فرمایا : مجھ پر اتنی سخت تپ آتی ہے جیسے تم میں دو آدمیوں کی تپ ملائی جائے۔ میں نے عرض کیا آپ کو اجر بھی دوگنا ملے گا۔ فرمایا : ہاں! پھر فرمایا : جس شخص کو کوئی تکلیف بیماری وغیرہ ہو اللہ اس کے گناہ ایسے جھاڑ دیتا ہے جیسے درخت (موسم خزاں میں) اپنے پتے جھاڑ دیتا ہے۔ (بخاری۔ کتاب المرضیٰ۔ باب وضع الید علی المریض) ٩۔ آپ کی وفات کے بعد کوئی شخص آپ کی بیویوں سے نکاح نہیں کرسکتا۔ کیونکہ وہ مسلمانوں کی مائیں ہیں اور یہ اعزاز صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج سے مخصوص ہے کوئی امتی اس اعزاز میں شریک نہیں ہوسکتا۔ کیا نکاح کا مقصد صرف جنسی خواہش کی تکمیل یا حصول اولاد ہی ہے؟ یہاں ایک شبہ کا ازالہ ضروری ہے۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ نکاح کا مقصد شہوت رانی یا زیادہ سے زیادہ اولاد کا حصول ہے۔ یہ نظریہ کسی حد تک درست ہے مگر انتہائی تنگ نظری پر مبنی ہے۔ کسی حد تک ہم نے اس لئے کہا ہے کہ نکاح سے شریعت کا اصل مقصد معاشرہ کو فحاشی اور بے حیائی سے پاک و صاف رکھنا ہے۔ اسی لئے شریعت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بلوغت کے بعد کوئی مرد یا عورت بے زوج نہ رہے۔ اگر زوج فوت ہوجائے یا شوہر طلاق دے دے تو ہر ایک کے لئے مستحب یہی ہے کہ وہ نکاح کرلے۔ (ملاحظہ ہو سورۃ نور کی آیت نمبر ٣٢ کا حاشیہ) حالانکہ جو انی کے انحطاط کے بعد انسان کی شہوت میں معتدبہ حد تک کمی واقع ہوجاتی ہے اور اگر اولاد ہو تو اسے اللہ کی قدرت ہی سمجھا جاتا ہے۔ بڑھاپے میں اولاد کا ہونا کوئی عادی امر نہیں ہے۔ البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اصل مقصد یعنی معاشرہ کی پاکیزگی کا ایک ثمرہ اولاد کا حصول بھی ہے۔ جو کبھی حاصل ہوتا ہے کبھی نہیں ہوتا۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ زوجین کے بالغ اور بظاہر صحت مند ہونے کے باوجود ان کے ہاں ساری عمر اولاد نہیں ہوتی۔ اور صرف اولاد کے حصول کو تنگ نظری پر محمول ہم نے اس لئے کہا ہے کہ نکاح سے اور کئی مقاصد اور فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں مثلاً نکاح کا دوسرا مقصد قریبی رشتہ داروں میں قرابت کے تعلق کو برقرار رکھنا اور مودت بڑھانا ہے۔ تیسرا مقصد دینی اخوت کا قیام اور اس میں اضافہ ہے چوتھا مقصد کئی طرح کے دینی، سیاسی، معاشی فوائد کا حصول ہے اور بعض دفعہ ایسے مقاصد حصول اولاد سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں آپ ذرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر نظر ڈالئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے نکاح کئے؟ کس عمر میں کئے؟ کس قسم کی عورتوں سے کئے اور کن کن مقاصد کے تحت کئے تو یہ حقیقت از خود منکشف ہوجائے گی کہ نکاح کا مقصد صرف جنسی خواہشات کی تکمیل یا حصول اولاد ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے بلند تر مقاصد بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔ آپ نے کتنی شادیاں کی اور کن کن اغراض کے تحت کیں؟ :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا نکاح ٢٥ سال کی عمر میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہوا جو اس وقت چالیس سال کی تھیں اور ان کو پہلے دو مرتبہ طلاق ہوچکی تھی۔ ان کی وفات ١٠ نبوی میں ہوئی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پچاس سال تھی۔ ماسوائے سیدنا ابراہیم کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری اولاد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی کے بطن سے پیدا ہوئی۔ یعنی جوانی کا پورا زمانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک ہی بیوی کے ساتھ گزارا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا جو ایک بوڑھی، بھاری بھر کم اور مطلقہ عورت تھیں اور اس نکاح سے آپ کا مقصد اولاد کی تربیت تھی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کی ذمہ داریوں کی وجہ سے اولاد کی تربیت پر توجہ نہیں دے سکتے تھے۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹیوں سے آپ نے نکاح اس غرض سے کیا کہ یہ شیخین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا و آخرت میں رفیق اور وزیر ہیں۔ اور تعلقات میں مزید محبت اور خوشگواری پیدا کرنے کے لئے آپ نے یہ نکاح کئے تھے۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری بیویوں میں سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کنواری تھیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا باقی سب بیویاں مطلقہ تھیں یا بیوہ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ذمہ داری یہ بھی تھی کہ قبائلی جاہلی نظام اور اس کی عصبیت کو ختم کرکے اسلامی نظام قائم کریں۔ اور سابقہ عداوتوں کو ختم کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ام سلمہ سے نکاح کیا جو اس خاندان کی بیٹی تھی جس سے ابو جہل اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا تعلق تھا۔ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ابو سفیان کی بیٹی تھیں۔ ان شادیوں نے بڑی حد تک ان خاندانوں کی دشمنی کا زور توڑ دیا۔ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا، سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا اور ریحانہ رضی اللہ عنہا یہودی خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ انھیں آزاد کرکے جب آپ نے ان سے نکاح کئے تو یہود کی معاندانہ سرگرمیاں ٹھنڈی پڑگئیں۔ کیونکہ عرب روایات کے مطابق کسی شخص کا داماد اس شخص کے پورے قبیلے کا داماد سمجھا جاتا تھا۔ اور اس سے لڑنا یا عداوت رکھنا بڑے عار کی بات تھی۔ پھر آپ کی نبوت کا ایک مقصد جاہلانہ رسوم کا قلع قمع بھی تھا۔ سیدہ زینب بنت جحش سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مقصد کے تحت نکاح کیا تھا۔ پھر ہر خاندان اور ہر عمر کی عورتوں سے نکاح کا ایک اہم مقصد دینی تعلیم بھی تھا۔ شریعت کے احکام کے کئی گوشے ایسے بھی ہیں جو صرف عورتیں ہی عورتوں کو سمجھا سکتی ہیں یا صرف بیویاں ہی اپنے شوہر کے اوصاف و خصائل اور ان کی پرائیویٹ زندگی امت کو بتا سکتی ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے چند ایک فقیہ بھی تھیں حتیٰ کہ بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہم آپ سے مسائل پوچھنے آتے تھے یہ تھے وہ مقاصد جن کی تکمیل کے لئے اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تعدد ازواج پر پابندی نہیں لگائی اور فرما دیا کہ ایسے مقاصد کی تکمیل میں آپ پر تعدد ازواج کی پابندی کہیں تنگی اور رکاوٹ کا سبب نہ بن جائے۔ [ ٨٠] آپ پر حق مہر یا نان ونفقہ واجب نہیں تھا :۔ عام مسلمانوں پر اپنی بیویوں کو حق مہر ادا کرنا بھی واجب ہے اور نان و نفقہ کی ادائیگی بھی۔ اگر کوئی عورت اپنا نفس ہبہ کرے تب بھی اس سے حق مہر ساقط نہیں ہوگا۔ اور نبی پر اپنی بیویوں کا نان و نفقہ اس طرح واجب نہیں جس طرح عام مسلمانوں پر ہے۔ بلکہ نبی جو کچھ اور جتنا کچھ اپنی بیویوں کو دے یا دے سکے اس پر انھیں صابر و شاکر رہنا ہوگا جیسا کہ پہلے واقعہ ایلاء میں وضاحت سے گزر چکا ہے۔