يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا
اے نبی اپنی بیویوں سے کہہ دے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ فائدہ دوں ۔ تمہیں اچھی طرح سے رخصت کروں
[ ٤٠] بیویوں کا آپ سے خرچ کا مطالبہ :۔ یہاں سے ایک بالکل نیا موضوع شروع ہوتا ہے۔ اموال غنیمت سے جب مسلمانوں میں کچھ آسودگی آگئی۔ تو ازواج مطہرات نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ زائد اخراجات کا مطالبہ کردیا۔ حالات کے مطابق ان کا یہ مطالبہ کچھ ایسا ناجائز بھی نہ تھا۔ کیونکہ دوسرے سب مسلمان آسودہ ہو رہے تھے۔ مگر آپ کی فقرپسند طبیعت پر بیویوں کا یہ مطالبہ سخت شاق گزرا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کبیدگی طبع کی بنا پر ایک ماہ کے لئے اپنی بیویوں سے کنارہ کش رہنے کا ارادہ کرلیا جیسا کہ درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے : ١۔ سیدنا جابر کہتے ہیں کہ : سیدنا عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں آئے اور اجازت چاہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اندر آنے کی اجازت دے دی۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کی بیویاں غمگین اور خاموش بیٹھی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ میرے گرد بیٹھی خرچ کا مطالبہ کر رہی ہیں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایک مہینہ کے لئے علیحدگی اختیار کرلی۔ (بخاری۔ کتاب النکاح باب موعظۃ الرجل ابنتہ) واقعہ ایلاء کی تفصیل :۔ ٢۔ سیدنا عمر کہتے ہیں میں اور میرا ایک انصاری پڑوسی بنی امیہ بن زید کے گاؤں میں جو مدینہ کے بالائی دیہات میں سے ایک گاؤں ہے، رہا کرتے۔ اور باری باری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کرتے۔ ایک دن وہ آتا اور ایک دن میں۔ جب میں آتا تو اس دن کی ساری خبر وحی جو آپ پر نازل ہوتی اسے بتاتا اور جس دن وہ آتا تو وہ بھی ایسا ہی کرتا ایک دن میرا انصاری ساتھی اپنی باری کے دن آیا تو واپس آکر زور سے میرا دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا : ’’عمررضی اللہ عنہ ہیں؟‘‘ میں گھبرا کر باہر آیا تو کہنے لگا : ’’آج ایک بڑا حادثہ ہوگیا، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی) میں حفصہ کے پاس گیا تو وہ رو رہی تھی۔۔‘‘ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب التناؤب فی العلم) ٣۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’مجھے میرے ایک انصاری ہمسایہ نے ایک دن خبر دی کہ رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔‘‘ میں حفصہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو وہ رو رہی تھی۔ میں نے اسے پوچھا : ’’کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی؟‘‘ وہ کہنے لگیں : ’’میں نہیں جانتی اور وہ اس جھروکے میں الگ ہو بیٹھے ہیں‘‘ میں وہاں سے (مسجد میں) چلا گیا اور اسود (دربان) سے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے لئے اندر آنے کی اجازت حاصل کرو۔ لڑکا اندر گیا پھر باہر آکر کہنے لگا : ’’میں نے آپ کا ذکر کیا تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا‘‘ میں پھر مسجد کی طرف چلا گیا۔ لوگ وہاں منبر کے اردگرد بیٹھے رو رہے تھے۔ میں ان کے پاس بیٹھ گیا، مگر مجھ پر پھر وہی فکر غالب آئی۔ میں لڑکے کے پاس آیا اور کہا: ’’ عمر کے لئے اجازت حاصل کرو‘‘ لڑکا اندر گیا۔ پھر اس نے باہر آکر مجھے کہا : ’’میں نے آپ کا ذکر کیا تھا۔ مگر آپ نے کوئی جواب نہیں دیا‘‘ میں پھر مسجد میں آیا اور بیٹھ گیا۔ پھر مجھ پر وہی فکر غالب ہوئی۔ میں لڑکے پاس آیا اور کہا : ’’عمر کے لئے اجازت مانگ‘‘ لڑکا اندر گیا، پھر باہر آکر کہنے لگا : ’’میں نے آپ کا ذکر کیا تھا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا‘‘ جب میں وہاں سے لوٹ آیا تو اس وقت لڑکے نے مجھے پکارا کہ آجاؤ۔ تمہارے لئے اجازت مل گئی میں اندر گیا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بوریے پر تکیہ لگائے ہوئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلوؤں میں بوریے کے نشان پڑگئے ہیں۔ میں نے پوچھا : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''نہیں'' میں نے اللہ اکبر پکارا۔ پھر کہا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ دیکھئے۔ ہم قریشی لوگ اپنی عورتوں کو دبا کر رکھتے تھے پھر جب ہم مدینہ آئے تو ایسے لوگ دیکھے جنہیں ان کی بیویاں دبا کر رکھتی ہیں۔ ہماری عورتیں بھی ان کی عادات سیکھنے لگیں۔ میں ایک دن اپنی بیوی پر ناراض ہوا تو وہ مجھے جواب دینے لگی جو مجھے برا لگا تو وہ کہنے لگی : برا کیوں مناتے ہو۔ اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیتی ہیں۔ اور کئی تو رات تک خفا رہتی ہیں۔ میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : ’’کیا تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیتی ہے؟‘‘ وہ کہنے لگیں ’’ہاں! اور ہم میں سے کوئی تو رات بھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خفا رہتی ہے‘‘ میں نے کہا : ’’تم میں سے جس نے یہ کام کیا وہ نامراد ہوئی اور نقصان اٹھایا۔ کیا تم اس بات سے ڈرتی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کی وجہ سے اللہ بھی ان سے ناراض ہوجائے گا اور وہ تباہ ہوجائے گی‘‘ اس بات پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے۔ پھر اپنی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا’’حفصہ! تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی جواب نہ دینا اور نہ ہی ان سے کچھ مطالبہ کرو۔ بلکہ جو تم چاہو مجھ سے مانگ لیا کرو اور کسی دھوکہ میں نہ رہنا کیونکہ تمہاری ساتھی عائشہ تم سے خوبصورت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی ہے‘‘ اس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ مسکرائے۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں آپ کا جی بہلاؤں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ٹھیک ہے، میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو مجھے اس گھر میں کچھ نظر نہ آیا۔ بجز تین چمڑوں کے، میں نے کہا : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ آپ کی امت کو کشادگی بخشے۔ اللہ نے روم اور فارس کو کشادگی دی ہے۔ حالانکہ وہ اس کی عبادت بھی نہیں کرتے۔‘‘ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا : خطاب کے بیٹے! کیا تم ابھی تک شک میں پڑے ہو۔ ’’ان لوگوں کو تو ان کی نیکیوں کا بدلہ دنیا میں ہی مل گیا ہے‘‘ سیدنا عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مہینہ بھر اپنی بیویوں کے پاس نہ گئے۔ تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر عتاب اور قسم کے کفارہ کا حکم دیا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب انتیس دن گزر گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے۔ (ترمذی۔ باب التفسیر۔ سورۃ تحریم)