سورة الأحزاب - آیت 1

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اے نبی اللہ سے ڈرا ور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ مان ۔ بےشک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١] جنگ احدکےبعدمدینہ پرخوف وہراس کی فضا:۔ اگرچہ اس سورۃ کا اکثر حصہ جنگ (احزاب ٥ ھ) کے بعد نازل ہوا تاہم ابتدائی آیات جنگ احزاب سے بہت پہلے کی ہیں۔ مکہ میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور مسلمانوں کے دشمن صرف قریش مکہ تھے۔ مگر مدینہ جانے کے بعد مدینہ کے یہود، مشرکین اور منافقین سب آپ کے دشمن بن گئے تھے۔ جو اسلام اور پیغمبر اسلام کو بدنام کرنے اور صفحہ ہستی سے مٹا دینے پر تلے بیٹھے تھے۔ غزوہ احد میں مسلمانوں کو جو عارضی طور پر شکست ہوئی تھی اس نے دشمنوں کے حوصلے بہت بڑھا دیئے تھے۔ مشرک قبائل نے دو دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکا دے کر تبلیغ کے لئے قاریوں کا مطالبہ کیا اور پھر انھیں قتل کردیا۔ مدینہ پر ہر وقت خوف و ہراس کی فضا طاری رہتی تھی۔ اور اعدائے اسلام نے اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کی مہم بڑی تیز کر رکھی تھی۔ معاشرتی اصلاحات اور غلامی کا مسئلہ :۔ اور یہی وہ دور تھا جس میں بذریعہ وحی مسلمانوں کی اخلاقی تربیت اور معاشرتی اصلاحات کا سلسلہ بھی جاری تھا اور معاشرتی اصلاحات کے سلسلہ میں ایک نہایت اہم مسئلہ غلامی کا تھا۔ عرب معاشرہ میں غلامی کا اتنا زیادہ رواج تھا کہ اگر یوں کہا جائے کہ اس دور میں عرب آبادی کا آدھے سے زیادہ حصہ غلاموں پر مشتمل تھا تو غلط نہ ہوگا۔ پھر ان غلاموں کو آزاد انسانوں سے بہت حقیر اور کم تر درجہ کی مخلوق سمجھا جاتا تھا اور اسلام اس سلسلہ میں کئی اصلاحات کرنا چاہتا تھا۔ غلام اور آزادکی طبقاتی تقسیم :۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی یہ تھی کہ زید بن حارثہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام تھا۔ جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کرکے اپنا متبنیٰ بنا لیا تھا۔ چنانچہ لوگ سیدنا زید کو زید بن محمد کہا کرتے تھے۔ یہ آزاد کردہ غلام بھی معاشرہ میں وہ مقام نہیں رکھتے تھے جو آزاد لوگوں کا ہوتا تھا۔ گویا یہ معاشرتی عزت و وقار کے لحاظ سے ایک درمیانہ قسم کا تیسرا طبقہ بن جاتا تھا جو غلاموں سے تو اوپر ہوتا تھا لیکن آزاد لوگ انھیں بھی اپنا ہم پلہ قرار نہیں دیتے تھے۔ اس سلسلہ میں اسلام نے کئی اقدامات کئے اور کئی اصلاحات کیں۔ مثلاً اسلام نے اگرچہ کلی طور پر غلامی کا استیصال نہیں کیا کیونکہ اس میں بھی کچھ مصلحتیں تھیں تاہم ایسی تدابیر اختیار کیں جن سے زیادہ سے زیادہ غلاموں کو آزادی کی نعمت میسر ہو اور یہ ایک جداگانہ موضوع ہے۔ جو خاصا تفصیل طلب ہے۔ آپ کے آزاد کردہ غلام زید کا سیدہ زینب سے نکاح :۔ آزاد شدہ غلاموں کے سلسلہ میں اسلام کا منشا یہ تھا کہ کم از کم ایسے لوگوں کو آزاد لوگوں کے برابر درجہ دیا جائے۔ چنانچہ اسی منشائے الٰہی کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام اور متبنیٰ زید کے لئے اپنی پھوپھی زاد بہن سیدہ زینب سے رشتہ کا مطالبہ کردیا۔ سیدہ زینب کا خاندان آپ ہی کا خاندان تھا۔ جو آزاد معاشرہ میں بڑے اونچے درجہ کے لوگ شمار ہوتے تھے وہ بھلا کیسے اس رشتہ کو قبول کرسکتے تھے؟ چنانچہ انہوں نے اسی بنا پر رشتہ سے صاف انکار کردیا اور رشتہ کا یہ مطالبہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے کیا تھا۔ لہٰذا ان لوگوں کے انکار پر اسی سورۃ کی آیت نمبر ٣٦ نازل ہوئی۔ جس میں سیدہ زینب کے رشتہ داروں کو مطلع کردیا گیا کہ ’’جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا فیصلہ کرلیں تو مومنوں کا کچھ اختیار باقی نہیں رہ جاتا‘‘ چنانچہ انہوں نے اللہ کے اس حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا اور سیدنا زید اور سیدہ زینب کی شادی ہوگئی۔ مگر شادی کے بعد بھی زوجین کے تعلقات میں خوشگواری نہ آسکی۔ اور اس کی وجہ وہی طبقاتی امتیاز تھا جو معاشرہ میں جڑ پکڑ چکا تھا۔ آپ کا زید کو سمجھانا اور طلاق کی نوبت :۔ سیدہ زینب نے اللہ کے حکم کے سامنے تو سر تسلیم خم کردیا مگر طبیعت کا یکدم بدل جانا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ اور وہ اپنے خاوند کا وہ احترام نہ کرسکیں جو ایک بیوی کو اپنے خاوند کا کرنا چاہئے۔ سیدنا زید چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے بھی تھے اور متبّنی بھی۔ لہٰذا انہوں نے کئی بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی اس تکلیف اور ذہنی کوفت کی شکایت کی۔ اور یہ بھی کہا کہ میں زینب کو طلاق دے دوں گا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا زید کو طلاق سے منع ہی فرماتے رہے۔ ہر مشکل کام کا آغاز نبی کی ذات سے : سیدہ زینب سے نکاح کا حکم :۔ عرب معاشرہ میں ایک اور بگاڑ بھی موجود تھا جو یہ تھا کہ یہ لوگ متبنیٰ کو ہر لحاظ سے اپنے حقیقی بیٹوں کی مانند قرار دیتے تھے اور اس مسئلہ میں بھی اسلام اصلاحی قدم اٹھانا چاہتا تھا۔ لیکن یہ قدم چونکہ انتہائی مشکل قدم تھا۔ اور جو شخص بھی اس بند دروازے کو کھولنے کا ارادہ کرتا اسے سارے عرب معاشرہ کے طعن وتشنیع کا ہدف بننا پڑتا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مشکل کام کے لئے نبی کی ذات کو منتخب کیا۔ جن دنوں سیدنا زید سیدہ زینب کو طلاق دینے کا سوچ رہے تھے۔ اسی دور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشارہ مل چکا تھا کہ اب سیدہ زینب کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کیا جائے گا۔ اس اشارہ حکم الٰہی سے دو مصلحتیں مقصود تھیں ایک یہ کہ سیدہ زینب جس نے اپنی طبیعت کی ناگواری کے باوجود اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا تھا آئندہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کرکے اس کی دلجوئی کی جائے اور دوسری مصلحت یہ تھی کہ معاشرہ میں اس غلط نظریہ کا قلع قمع کیا جائے کہ متبنّیٰ بھی ہر لحاظ سے حقیقی بیٹے کی طرح ہوتا ہے۔ نکاح پر کافروں اور منافقوں کا طعن وتشنیع :۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سے سیدہ زینب سے نکاح کا اشارہ ملا۔ تو آپ کے سامنے وہ سارے خطرات آنے لگے۔ جب سارے کے سارے دشمن آپ کو یہ طعنہ دیں گے کہ دیکھو! اس نبی نے تو اپنی بہو سے نکاح کرلیا ہے حالانکہ یہ خود ہی بہو سے نکاح کرنا حرام بتاتا ہے۔ غالباً طعن و تشنیع کے انھیں خطرات کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم زید کو بار بار طلاق دینے سے روکتے رہے۔ اسی پس منظر میں اس سورۃ کی یہ ابتدائی آیات نازل ہوئیں اور اللہ تعالیٰ نے براہ راست اپنے نبی کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں ان کافروں اور منافقوں سے نہ ڈرنے کی ضرورت ہے نہ ان کی باتوں پر کان دھرنے کی۔ ڈرنے کے لائق تو صرف اللہ کی ذات ہے۔ تم صرف اسی سے ڈرو اور اسی کی وحی کی اطاعت کرو۔ اللہ اپنے احکام کی حکمت خوب جانتا ہے کہ وہ کیوں ایسا حکم دے رہا ہے اور جو لوگ اس نکاح کے رد عمل میں شور و غوغا بپا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سے بھی پوری طرح باخبر ہے۔